وفاقی حکومت یہ غلطی نہ کرے

November 15, 2015

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو اس بات کا اب احساس کر لینا چاہئے کہ پارلیمنٹ اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے ہر مشکل وقت میں ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ جمہوریت اور جمہوری حکومت کے تحفظ کیلئے تقریباً تمام سیاسی قوتیں سامنے آجاتی ہیں ۔ جبکہ میاں محمد نواز شریف جب خود اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کا رویہ ایسا نہیں ہوتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ پارلیمنٹ کو زیادہ اہمیت دیں اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کیساتھ وسیع تر مشاورت کی بنیاد پر ورکنگ ریلیشن قائم کریں ۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین عمران خان اور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے جب اسلام آباد میں طویل ترین دھرنا دیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بغیر وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے ۔ تب پارلیمنٹ اور اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں نے جمہوریت اور جمہوری حکومت کو بچانے کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا ۔ دھرنے کیساتھ ساتھ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی جاری رہا اور اس اجلاس میں خطاب کرنے والے تقریباً ہر رکن پارلیمنٹ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جمہوریت کا ہر حال میں تحفظ کیا جائیگا ۔ پارلیمنٹ کے باہر بھی پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے ان غیر جمہوری قوتوں کو للکارا ، جو ان کے بقول جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنا چاہتی تھیں ۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کی وجہ سے 1990ء کے عشرے والی سیاست دفن ہوگئی اور تمام سیاسی قوتیں جمہوریت اور جمہوری نظام کے دفاع کیلئے متحد ہو گئیں ۔ اسی زمانے میں پہلی مرتبہ سیاست دانوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ کہہ دیا کہ اگر جمہوری نظام عمل کو پٹری سے اتارا گیا تو وہ زبردست مزاحمت کریںگے ۔ پارلیمنٹ اور سیاسی قوتوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی لرزتی ہوئی حکومت کو سہارا دیا اور اسے سیاسی طاقت فراہم کی ۔ اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کردینی چاہئے تھی ۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت ایک بار پھر دباؤ کا شکار ہے ۔ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا جو بیان جاری کیا گیا ہے ، اس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے طویل المدت نتائج کیلئے ایسی ہی گورننس ضروری ہے۔اس بیان کے بارے میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کور کمانڈرز کا اشارہ سمجھے ۔ حکومت نے بھی یقیناً اس بات کو محسوس کیا ہے اور اسی وجہ سے وفاقی حکومت کے ترجمان کو یہ وضاحت کرنا پڑی ہے کہ حکومت گڈ گورننس پر توجہ دے رہی ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد حکومت اور اس کے اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ وفاقی حکومت کے ترجمان کی طرف سے بیان جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو کچھ غیر معمولی صورت حال کا ادراک ہوا ہے ۔ وفاقی حکومت کے ترجمان کے بیان میں الفاظ کا انتہائی محتاط استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن سینیٹ کے اجلاس میں حکومت سے زیادہ اپوزیشن کے ارکان سینیٹ نے کھل کر باتیں کی ہیں اور جمہوریت اور جمہوری حکومت کا دفاع کیا ہے۔ پارلیمنٹ ایک بار پھر نواز شریف حکومت کیلئے آگے آگئی ہے ۔ اگرچہ خود وفاقی وزراء اور وفاقی حکومت کے دیگر ذمہ داران وہ جارحانہ لہجہ اختیار نہیں کررہےجو اس وقت اپوزیشن والوں نے اختیار کیا ہوا ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی ٹیم کو سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہئے ۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو زیادہ سے زیادہ اعتماد میں لیں اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کیساتھ مشاورت کا سلسلہ وسیع کریں کیونکہ پاکستان انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے ۔ پارلیمنٹ کے ذریعے نئی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے اور ان پالیسیوں پر اسی طرح اتفاق حاصل کیا جائےجس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا آئین بناتے وقت یا آصف علی زرداری نے 18ویں آئینی ترمیم کیلئے حاصل کیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف کو پارلیمنٹ کیساتھ ساتھ پارلیمنٹ سے باہر آل پارٹیز کانفرنس کے فورم سے بار بار رجوع کرنا ہو گا ۔ انتہائی افسوس کیساتھ اس امر کا تذکرہ یہاں ضروری ہے کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں گورننس کے حوالے سے جو بات کی گئی ہے ، وفاقی حکومت کے ذمہ داران اس بات کا یہ مطلب اخذ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ یہ بات سندھ میں بیڈ گورننس کے تناظر میں کی گئی ہے ۔ فوج کی طرف سے کسی حکومت کا نام نہیں لیا گیا لیکن وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے اس بات کو یہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے کہ سندھ میں گورننس نہ ہونے پر فوج ناراض ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت سارا ملبہ سندھ حکومت پر ڈال رہی ہے اور یہ اس کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوسکتی ہے ۔ کراچی میں دہشت گردی کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے اور اسی دہشت گردی کی وجہ سے پہلے سندھ میں حکومت غیر مستحکم ہوتی ہے اور اس کے بعد پورے ملک میں سسٹم لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ وفاقی حکومت خود یہ راستہ بنا رہی ہے۔ اگر کراچی کے ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو سندھ حکومت اتنی قصور وار نہیں ہے ، جتنا اسے ٹھہرایا جا رہا ہے ۔ کراچی کے آپریشن میں بعض قوتوں کی طرف سے معاملات کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آپریشن کے اب تک کے نتائج سے عوام کی مایوسی کا رخ موڑا جاسکےاور بعض اداروں کی غلط حکمت عملی کو تحفظ دیا جاسکے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ یہ ملبہ سندھ حکومت پر نہ ڈالے ، ورنہ اس ملبے میں صرف سندھ حکومت نہیں دبے گی بلکہ بات بہت آگے تک جائے گی ۔ وقت آ گیا ہے کہ پارلیمنٹ پر زیادہ انحصار کیا جائے ۔ قومی معاملات میں سیاسی قوتوں کیساتھ وسیع تر مشاورت کی جائے،سندھ میں آپریشن کے اب تک کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے اور تین عشروں سے کراچی میں جاری دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے بھی نئی قومی حکمت عملی وضع کی جائے ۔ سندھ حکومت پر سارا ملبہ ڈالنے کی وفاقی حکومت کبھی غلطی نہ کرے ۔