خبردار! ہوشیار!

November 24, 2016

9/11 کے بعد پاکستان کے تعلیمی نصاب میں بہت تبدیلیاں کی گئیں۔ یہاں تک کہ جہاد کے بارے میں قرآنی آیات کو نصاب سے نکالا گیا۔ یہ سب کچھ امریکا اور یورپ کے دبائو پر کیا گیا۔ اس پر شور بھی اُٹھا لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کی ایما پرتعلیمی نصاب میں تبدیلی کا سلسلہ ابھی تک رُکا نہیں بلکہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ خاموشی سے نجانے کیا کچھ تبدیل کیا جا چکا اور نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ کہاں رُکے گا۔ اس سلسلے میں کبھی کبھار کہیں کوئی خبر شائع ہو جائے تو پتا چلتا ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے لیکن یہ وہ معاملہ ہے جو اب ریڈ لائنز کو کراس کر رہا ہے۔ چند روز قبل میں نے ایک خبردی نیوز اور جنگ میں دی جو ایک امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی پاکستان سے متعلق سال 2016 میں شائع کی گئی رپورٹ پر مبنی تھی۔ اس رپورٹ کی تیاری میں ایک پاکستانی این جی او پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن نے کام کیا۔رپورٹ کا موضوع ’’ُپاکستان میں عدم برداشت کی تدریس۔ پبلک اسکول کی نصابی کتب میں مذہبی تعصب‘‘ ہے جس میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے ایسی ایسی سفارشات دی گئی جن کا صاف صاف مقصد پاکستان کی آئندہ نسلوںکو اسلام سے دور کرنا ہے۔
مسئلہ سنگین اس لیے ہے کہ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں متعلقہ امریکی کمیشن (The US Commission on International Religious Freedom) اور لوکل این جی او (Peace and Education Foundation) کی 2011 کی ایک رپورٹ کے نتیجے میں خصوصاً پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں تعلیمی نصاب میں کئی تبدیلیاں پہلے ہی کی جا چکی ہیں۔ 2016 کی رپورٹ تفصیلی ہے اور اگر اس پر بھی عمل درآمدہوا تو پھر کیا ہو گا اُس کا اندازہ آپ رپورٹ پڑھ کر ہی لگا سکتے ہیں۔ قارئین کرام، حکام بالا، پارلیمنٹ، عدلیہ، سیاسی جماعتوں کی توجہ کے لیے اس رپورٹ کے کچھ حصے پیش کر رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ پاکستان میں تعلیمی نصاب کی بہتری کے نام پر کس قسم کی سازش ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے: ’’سرکاری اسکول کی نصابی کتابیں جو 41 لاکھ سے زائد بچوں تک پہنچتی ہیں، وہ اسلام مرکوز نقطہ نظر کو بطور واحد جائز اور منطقی سوچ ظاہر کرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کے منفی اور دقیانوسی انداز میں تصویر کشی کرتی ہیں۔ـ‘‘ رپورٹ میں اس بات پر سخت اعتراض اُٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں اسلامی عقیدہ پر زور کیوں دیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا: ’’پاکستان کے مذہبی تنوع کے باوجود، پورے نصاب میں اسلام کو پاکستان کی کلیدی خصوصیت اور پاکستان کے شناخت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ مذہبی اقلیتوں کے مذہبی عقائد کے ساتھ تنازع میں آتا ہے۔۔۔‘‘
امریکی کمیشن کی اس رپورٹ میں یہ بھی اعتراض اٹھایا گیا کہ: ’’معاشرتی علوم، مطالعہ پاکستان اور تاریخ کے نصاب میں طلباء کو تاریخ کی وہ قسم پڑھائی جاتی ہے جو پاکستان کے ایک قومی اور اسلامی تشخص کو فروغ دیتی ہے اور اکثر مذہبی لحاظ سے بھارت کے ساتھ تنازعات کو بیان کرتی ہے۔‘‘ امریکی کمیشن کی یہ رپورٹ یہ بھی سمجھتی ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نصاب جنگ اور تشدد کی ستائش کرتا ہے۔ اس بارے میں رپورٹ کہتی ہے: ’’گریڈ کی تمام سطحوں کی نصابی کتب میں بار بار ابھرتا رجحان جنگ اور جنگ کے ہیرو کی ستائش پر بہت زور دیتا ہے۔ خاص طور پر محمد بن قاسم اور سلطان محمود غزنوی کے 17 مشہور حملوں سے سندھ کی فتح کو بہت فخر کے ساتھ ہر نصابی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔برصغیر میں تہذیب کے آغاز کے طور پر ان دو واقعات کو اجاگر کرنا جبکہ فن، فن تعمیر اور ثقافت کا ارتقاء کا درسی کتب میں نظر انداز کیا جانا ایک اہم مسئلہ ہے۔‘‘
اپنی سفارشات جو (لوکل این جی او نے تیار کیں) میں امریکی کمیشن لکھتا ہے کہ ’’اسلام کو بطور ’واحد صحیح‘ ایمان ہونے کو درسی کتب سے ختم کیا جانا چاہیں۔‘‘ کچھ دوسری سفارشات کے مطابق: ’’درسی کتب میں اقلیتی گروپوں کے نامور افراد کی متناسب مثالیں شامل کی جانی چاہیے، اور تمام گروپوں سے سائنس، ادب، طب اور کھیلوں کے شعبوں میں سے قومی ہیروز شامل کیے جانے چاہیںــ‘‘، ’’طالب علموں کو ایسا کوئی بھی مواد بالکل بھی نہیں سکھایا جانا چاہیے جو کسی ایک مذہب کو دوسرے مذہب کی قیمت پر ثابت کرے، اور جیسا کہ پاکستان کے آئین میں ضمانت شدہ ہے تو کسی بھی غیر مسلم طلباء کو اسلامی نصاب پڑھنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے‘‘، ’’منفی تلقین ختم ہونی چاہیے اور بہتر مبصرانہ تعلیم کے لیے غیر جانبدارانہ مواد اپنایا جائے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق کمیشن کی 2011 کی رپورٹ میں اٹھائے گئے کافی اعتراضات پاکستان تعلیمی نصاب سے ہٹا دیئے گئے ہیں جبکہ کئی کو ہٹانا ابھی باقی ہے۔رپورٹ کے مطابق لائی گئی بہتری لائق تحسین ہے لیکن نصابی کتب میں عدم برداشت اور متعصب مواد کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
دی نیوز اور جنگ میں رپورٹ کے کچھ حصے چند روز قبل شائع ہونے کے بعد آج امریکی کمیشن کی ویب سائٹ پر رپورٹ غائب ہے اور اسے کھولا نہیں جا سکتا۔ وجہ کیا ہے معلوم نہیں۔ ہو سکتا ہے اس رپورٹ کا اخبار میں شائع ہونا امریکا کے کسی دیسی خدمت گار کے لیے پریشانی کا باعث ہو اور اسی وجہ سے اس کو فی الحال بلاک کر دیا گیا ہو۔ لیکن میں نے احتیاطً رپورٹ کی کاپی اپنے کمپیوٹر پر saveکر لی تھی۔ رپورٹ انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں میںپوسٹ کی گئی۔ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا، سیاسی جماعتیں وغیرہ اس مسئلہ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہیں کہ نہیں؟؟

.