اُمید بھرے انکشافات

December 23, 2016

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں دو تین عشروں کے بعد جانا ہوا اور اِس کی خوبصورتی اور زیبائی دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ ایک زمانے میں ہمارے دوست ڈاکٹر انوار حسین صدیقی اِس جامعہ کے وائس چانسلر تھے اور انہوں نے اِس ادارے کو گراں مایہ بنانے میں بڑی محنت کی تھی۔ اُن کے رخصت ہونے کے بعد یونیورسٹی کا معیار قائم نہ رہا جو ایک بلند نصب العین کے تحت قائم کی گئی تھی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے محسوس کیا کہ فقط روایتی تعلیمی نظام کے ذریعے جہالت اور ناخواندگی کا خاتمہ ناممکن ہے، چنانچہ اُنہوں نے ایک ایسی یونیورسٹی کی 1974ء میں بنیاد رکھی جو دور دراز علاقوں تک علم کی روشنی پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہو اور طلبا اور طالبات گھر بیٹھے یا اپنے گھروں کے نزدیک تعلیم کے اخراجات برداشت کیے بغیر علوم و فنون میں دسترس حاصل کر سکیں۔ آج کل اِس یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی ہیں جو سالہا سال اِس ادارے سے وابستہ رہنے کے علاوہ اعلیٰ معیار کی ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم و تدریس کے فرائض ادا کر تے رہے۔ اُنہیں یہاں آئے دو سال ہو چکے ہیں اور اُن کی شبانہ روز کاوشوں سے ایک حیات افروز تحقیقی ماحول قائم ہوا ہے اور علم کی روشنی پھیلانے کے سائنسی طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ وہ اُردو شعر و ادب اور انگریزی لٹریچر پر کمال دسترس رکھتے ہیں اور طلبہ اور اساتذہ میں ادبی اور علمی ذوق کی نشوونما کے لیے تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں جن میں کتاب اور مصنف پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے اور گہرے فکری موضوعات پر ہمہ پہلو مقالات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اِسی پروگرام کے تحت انہوں نے ’ملاقاتیں کیا کیا‘ پر 19دسمبر کی صبح ایک تقریب منعقد کی اور مجھے بھی شرکت کی دعوت دی۔
میں نے اپنے بیٹے کامران اور پوتے ایقان حسن کے ہمراہ 18دسمبر کی شب یونیورسٹی میں قیام کیا اور اساتذہ اور طلبہ سے ملنے اور ایک عظیم الشان لائبریری میں جانے کا موقع ملا جو اب ساتوں روز دیر تک کھلی رہتی ہے۔ جناب وائس چانسلر سے تفصیلی ملاقات میں حیرت انگیز انکشافات نے دامنِ دل اپنی طرف کھینچ لیا اور میرا یقین پختہ ہوتا گیا کہ ہمارے وطن کے گوشے گوشے تک علم کی روشنی پہنچتی جا رہی ہے اور علم کی دولت سے بے وسیلہ شہری بھی مالامال ہو رہے ہیں جنہیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں۔ اب دور بیٹھے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد تیرہ لاکھ ہے جن کو 44علاقائی دفاتر، 1,200تعلیمی مراکز اور 70,000 جزوقتی اتالیقوں کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ طلبہ شرقِ اوسط اور امریکہ میں بھی آباد ہیں اور اِن میں 56فیصد خواتین شامل ہیں۔
مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں قابلِ تحسین ارتقا ہوا ہے اور تحقیق پر بالخصوص توجہ دی گئی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ میں تحقیق کا شوق پیدا کرنے کے لیے تحقیقی مقالات پر نقد انعامات دینے کا سلسلہ جاری ہے اور قومی کانفرنسوں اور تحقیقی منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اِن کے علاوہ آٹھ تحقیقی جرائد کا اجرا عمل میں آچکا ہے اور 9بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کی جا چکی ہیں جن میں قومی اور بین الاقوامی محققین نے حصہ لیا ہے۔ اِس امر کا بھی اہتمام کیا گیا کہ یونیورسٹی کے تحقیقی مقالے اور سات سو سے زائد نصابی کتابیں آن لائن دستیاب رہیں۔ اِن علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے پہلو بہ پہلو درسی کتابیں عصری تقاضوں میں ڈھالنے کے لیے ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی ہے جس نے سو فی صد کورسز کی جزوی نظرثانی کی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی اِس حقیقت کا گہرا اِدراک رکھتے ہیں کہ اساتذہ کی استعداد میں اضافے اور اُن کا قلبی تعاون حاصل کیے بغیر تیرہ لاکھ طلبہ کو معیاری تعلیم نہیں دی جا سکتی، چنانچہ انہوں نے اساتذہ کے سلیکشن بورڈ کو فعال کیا جس نے مستحق اساتذہ کو ترقیاں دیں، اُن کے مالی معاملات بہتر کیے اور یونیورسٹی کے چالیس کے لگ بھگ اساتذہ کو بین الاقوامی تربیت فراہم کی۔ مزید برآں شماریات میں پی ایچ ڈی، مطالعۂ پاکستان اور تاریخ میں ایم فل اور ٹیلی وژن پروڈکشن میں ایم ایس سی کے کورسز جاری ہیں۔
گزشتہ دو برسوں میں یونیورسٹی نے بعض غیر معمولی اہمیت کے پروگرام شروع کیے۔ میڈیا، جس کا کردار معاشرے میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، اِس کے ساتھ مکالمے کا آغاز کیا جس میں بلند پایہ صحافی حصہ لے رہے ہیں، جبکہ قوم کے محسنوں کو یاد رکھنے کا سلسلہ بہت مقبول ہو رہا ہے۔ اِس پروگرام کے تحت انتہائی معلومات افزا اور ایمان افروز تقریریں ہوتی ہیں اور مقالات پڑھے جاتے ہیں۔ اِس طرح یونیورسٹی کا تعلق اہلِ دانش اور معاشرے کے متحرک عناصر کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو رہا ہے اور طلبہ اور اساتذہ میں تاریخ اور پاکستان کے امور میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ وائس چانسلر صاحب معاشرے کے محروم طبقات اور خصوصی طور پر بلوچستان کی اِن بچیوں پر توجہ دے رہے ہیں جو اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آٹھ سو لڑکیوں نے ہمارے غیر روایتی نظامِ تعلیم کے ذریعے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کر لیا ہے اور آگے پڑھنے کے لیے زبردست خواہش کا اظہار کیا ہے جو نہایت خوش آئند بات ہے۔ اِس کے علاوہ وہ بنفسِ نفیس مختلف جیلوں میں گئے اور قیدیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اب ہماری یونیورسٹی میں رجسٹر ہونے والے قیدیوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ ہم انہیں جیل میں کتابیں اور استاد مہیا کرتے ہیں اور یوں معاشرے میں خیر کی روشنی پھیل رہی ہے۔ مجھے رئیسِ جامعہ اُمید کا ایک روشن مینار دکھائی دیے، اگرچہ ایک اچھے معیار تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
نہایت خوبصورت آڈیٹوریم میں ’ملاقاتیں کیا کیا‘ کی تقریب کا آغاز ہوا جس کی صدارت رئیسِ جامعہ ڈاکٹر شاہد صدیقی فرما رہے تھے۔ میزبانی کے فرائض شعبۂ اُردو کے پروفیسر جناب عبدالعزیز ساحر بجا لا رہے تھے۔ آغاز میں کتاب کے مرتب عزیزم ایقان حسن نے اپنی مختصر تقریر میں اپنے جذبات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ نئی نسل اِس کتاب سے کیا کچھ حاصل کر سکتی ہے۔ اِسے پاکستان کی تاریخ نہایت دلچسپ انداز میں پڑھنے کو ملے گی اور اِسے زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا راز معلوم ہو جائے گا۔ میری عمر کے نوجوان یہ بھی سیکھ سکیں گے کہ تحریر میں اثر کیسے پیدا ہوتا ہے۔ نامور قلم کار عمار مسعود، معروف ادیب جبار مرزا ، عظیم دانشور جناب خورشید ندیم، پروفیسر اعجاز شفیع اور صاحبِ نظر میڈیا پرسن سہیل وڑائچ نے کتاب کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کیا۔ میں بس اتنا کہہ سکا کہ مجھے تاریخ پر اثرانداز ہونے والی شخصیتوں کے ساتھ ہم کلامی کا اعزاز پاکستان کے وجود میں آنے سے حاصل ہوا، اگر پاکستان نہ بنتا، تو میں ہندوستان میں ایک خاکروب یا چپراسی ہوتا۔ ہمیں آزادی کی نعمت کی قدر اور اپنے رب کا ہر لمحے شکر ادا کرنا اور پاکستان کو مستحکم بنانا چاہئے۔ تقریب میں سینکڑوں طلبا و طالبات اور یونیورسٹی کے اساتذہ نے حصہ لیا اور ایک نقش ثبت کر دیا۔

.