محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے 9 برس بعد

December 26, 2016

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو 9 برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ملکوں خصوصاً عالم اسلام کے حالات وہی ہیں ، جن میں ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو یا ان کے پائے کے رہنماؤں کی دنیا کو اشد ضرورت ہو تی ہے ۔ 23 دسمبر 2016 کو ڈیڑھ سالہ جلا وطنی کے بعد آصف علی زرداری نے وطن واپسی پر کراچی ایئرپورٹ استقبالی ہجوم سے جو خطاب کیا ، اس میں بین السطور ان خدشات اور خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے ، جو 9 سال پہلے بھی تھے اور جو ہمارے عہد کا خاصا ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے موجودہ عہد کے حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں کیا ہے ۔ وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ’’ انتہا پسندی ، عسکریت پسندی ، دہشت گردی اور آمریت ایک دوسرے کا پیٹ بھرتے ہیں اور یہ چاروں عوامل غربت ، مایوسی اور عدم مساوات کے ماحول میں پھلتے پھولتے ہیں۔ ان چاروں عوامل کا مایوسی اور غربت سے باہم مربوط تعلق عالمی امن اور قومی استحکام کیلئے واضح خطرہ ہے ۔ ‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید آگے لکھتی ہیں کہ ’’ اس زنجیر کو توڑنا ہو گا ۔ ایسا کرنے کا ایک براہ راست طریقہ یہ ہو گا کہ خلیجی ریاستیں باقی دنیائے اسلام کی معاشی اور علمی ترقی کو ’’ جمپ اسٹارٹ ‘‘ کریں ۔ یہ وہ کام ہے ، جو میرے والد نے 1970 ء کی دہائی میں پاکستان کیلئے کرنے کی کوشش کی اور یہ وہ کام ہے ، جو میں نے بحیثیت وزیر اعظم اپنے دونوں ادوار میں کرنے کی کوشش کی ۔بہ الفاظ دیگر تیل غربت ، مایوسی ، آمریت اور انتہا پسندی کی زنجیر توڑ سکتا ہے ، جو اکثر پھیل کر بین الاقوامی دہشت گردی کی شکل اختیار کر جاتی ہے ۔ ‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے مغرب کو بھی یہ مشورہ دیا کہ وہ عالم اسلام میں جمہوریت کو فروغ دینے اور اسلامی ملکوں کی معاشی ترقی کیلئے کام کریں ۔ اس سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور عسکریت پسندی پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے اگرچہ اس وقت پاکستان میں آمریت نہیں ہے لیکن جمہوریت کیلئے خطرات موجود ہیں ۔ غربت بھی بڑھتی جارہی ہے اور مایوسی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی آج بہت کمی محسوس ہو رہی ہے ۔ انہیں اپنے عہد کے بحرانوں کا مکمل ادراک تھا ۔ ان کے پاس ان بحرانوں سے نمٹنے کیلئے ایک واضح پروگرام بھی موجود تھا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک ایسا لیڈر تسلیم کیا جاتا تھا ، جو علاقائی اور عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتی تھیں اور دنیا کو ان بحرانوں سے نکالنے کیلئے رہنمائی فراہم کر سکتی تھیں ۔ وہ مغرب اور عالم اسلام کے درمیان ایک رابطہ تھیں ، جو ان کی شہادت سے ختم ہو گیا ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ہی وہ لیڈر تھیں ، جنہوں نے ’’ تہذیبوں کا تصادم ‘‘ کے نظریہ کو مضبوط دلائل کے ساتھ مسترد کیا اور جنہوں نے عالم اسلام کے داخلی تضادات کی مناسب انداز میں نشاندہی کی ۔ ان کے مفاہمت کے فلسفہ نے مغرب اور اسلام کے درمیان ڈائیلاگ کا راستہ بنایا اور عالم اسلام کے داخلی تضادات پر ایک بحث کا آغاز کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ہی یہ ڈائیلاگ اور یہ بحث بھی ختم ہو گئی ۔ ان کے اس ماڈل پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا کہ مغرب کو کیا کرنا چاہئے اور مسلمان ریاستوں کو کیا کرنا چاہئے ۔ محترمہ کی شہادت سے نہ صرف پاکستان اور عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ۔
ان حالات کے تناظر میں آصف علی زرداری کے 23 دسمبر کے خطاب کا جائزہ لینا چاہئے ۔ یہ خطاب روایتی نہیں تھا اور اس میں وہ زبان بھی استعمال نہیں کی گئی ، جس کی موجودہ سیاسی حالات میں توقع کی جا رہی تھی ۔ انہوں نے بھی پہلی بات یہ کہی کہ پاکستان میں لوگ مایوس ہیں لیکن وہ مایوسی کا نہیں بلکہ امید کا پروگرام لے کر آئے ہیں ۔ انہوں نے بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں اپنا وژن دیا۔آصف علی زرداری کا کہنا یہ تھا کہ مغرب کے مقابلے میں اب مشرق کی ترقی کا دور ہے۔ اب دنیا پر مشرق کی بالادستی قائم ہو گی ۔ اب چین اور پاکستان کا دور ہے ۔ اس معاشی ترقی سے انتہا پسندی ، عسکریت پسندی ، دہشت گردی اور آمریت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے بین السطور یہ بھی متنبہ کیا کہ پاکستان کو شام نہیں بننے دیا جائے گا اور پاکستان کبھی ناکام ریاست نہیں بنے گا ۔ آصف علی زرداری نے یہ بھی کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے معمار سے نہیں پوچھا جا رہا اور جو لوگ سی پیک پر عمل درآمد کر رہے ہیں ، وہ صرف ٹھیکوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ان کا وژن چھوٹا ہے ۔ پیپلز پارٹی سی پیک کو پورے خطے کی خوش حالی کا ذریعہ بنائے گی ۔ آصف علی زرداری کے خطاب سے یہ بات محسوس کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے حالات کو بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ان کا وژن بہت وسیع ہے ۔ وہ ان خطرات کا بھی ادراک رکھتے ہیں ، جن کے بارے میں میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ یہ خطرات ہمارے عہد کا خاصا ہیں ۔ آصف علی زرداری کی وطن واپسی والے دن ان کے قریبی ساتھیوں کے دفاتر اور گھروں پر چھاپوں اور گرفتاریوں سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ آصف علی زرداری کسی ڈیل کے نتیجے میں نہیں آئے بلکہ انہوں نے ہر حال میں پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے اس وقت کا انتخاب کیا ہے ۔ آصف علی زرداری کی وطن واپسی سے پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی تنظیم نو بھی کر دی ہے اور سیاسی ماحول بھی گرما دیا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کے چار مطالبات پاکستان کی قومی سلامتی ، خارجہ امور ، سی پیک اور پاناما لیکس کے حوالے سے ہیں۔ پیپلز پارٹی اگرچہ بار بار یہ انتباہ کر رہی ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ مطالبات تسلیم نہیں کئے تو پیپلز پارٹی احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی اور یہ پیغام بھی دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں وہ وسیع تر سیاسی اتحاد قائم کرنے کی خواہش مند ہے اور وہ تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے ۔ شاید پیپلز پارٹی وہ خطرات محسوس کر رہی ہے ، جن پر دیگر سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی توجہ نہیں ہے ۔ پاکستان کے آئندہ عام انتخابات سے پہلے کا عرصہ بہت زیادہ اہم ہے اور اس عرصے میں بہت سی غیر متوقع چیزیں سامنے آسکتی ہیں ۔ آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ پاکستان کو شام نہیں بننے دیا جائیگا ، انتہائی معنی خیز جملہ ہے ۔27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت کے موقع پر جلسہ عام میں بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی طرف سے پیپلز پارٹی کی آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں جو اعلانات ہوں گے ، وہ زیادہ اہم ہیں ۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے لئے اس ناسازگار ماحول میں سیاست کرنے کا کیا راستہ اختیار کرتی ہے ۔

.