پاکستان کو چلنے دو

January 19, 2017

سیاسی اور سماجی حوالے سے بہت مدلل گفتگو کرنے والے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کا بیان ’’حکومت کو نہیں چلنے دیں گے‘‘ سن کر سوچ رہی ہوں حکومت کو نہ چلنے دینے سے مراد کیا صرف ایک شخص، ایک کابینہ اور ایک سیاسی جماعت ہے۔ جس طرح حکومت کی ہر اچھی بُری حکمت عملی اور کارکردگی کا اثر ریاست اور عوام پر پڑتا ہے، اسی طرح کچھ حکومتی وزیروں اور اپوزیشن رہنمائوں کے غیر ذِمہ دارانہ بیانات سے عوامی سطح پر ملک میں غیر یقینی فضا کو تقویت ملتی ہے اور عالمی تناظر میں ملک کا مورال پست ہوتا ہے۔ آج کل دونوں اطراف سے پتھراؤ کا عمل جاری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے پورے زور و شور سے سرگرم عمل ہیں۔ الیکشن کا موسم ابھی کافی دور ہے مگر ملک کی سیاسی فضا ابھی سے دھند آلود ہو چکی ہے۔ لہجوں میں تلخی اور مزاجوں میں برہمی کچھ زیادہ ہی نمایاں ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے لاہور میں ڈیرے ڈالنے کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ سندھ میں ان کی حکومت بھی ہے اور ڈیرے داری بھی۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے پاس دو صوبوں کی حکومتیں ہونے کے باوجود پنجاب ان کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آبادی کے حوالے سے پنجاب بڑا صوبہ ہے اس لئے آئندہ انتخابات میں بھی اسی کے نتائج فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ اس لئے اسے توجہ کا مرکز بنانا غیر منطقی نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ دونوں پارٹیاں مکمل طور پر اپوزیشن میں ہوتیں تو پنجاب کو مرکز بنا کر آئندہ انتخابات میں اثر انداز ہو سکتی تھیں لیکن یہ موجودہ حکومت کا حصہ ہیں اس لئے کہ ان کے پاس دو صوبوں میں حکومت موجود ہے۔ وہ اپنی کار کردگی سے پنجاب کا موازنہ کرنے کی بجائے حکومت پنجاب کی چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کو اچھال کر اپنی جگہ بنانے میں مصروف ہیں حالانکہ انہیں چاہئے کہ اپنے نظریات اور منشور کی بنیاد پر پنجاب کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
الیکشن کے دنوں میں تو پوری دنیا کے جمہوری ملکوں کے بڑے بڑے رہنماؤں کی تقاریر میں جذباتیت کا عنصر دَر آتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ وہ جذباتی تقریروں کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی جماعتوں کی عملی کارکردگی کے گوشوارے بھی پیش کر کے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف پاکستان واحد ملک ہے جہاں صرف نعروں اور شہیدوں کے نام پر الیکشن لڑنے کا رواج زور پکڑ چکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے غصے اور قبل از وقت واویلے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام آباد والے اس بات پر بضد ہو گئے ہیں کہ 2018ء کا الیکشن بھی وہی جیتیں گے اور دوبارہ انہی کی حکومت بنے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت پر صرف انہی کا حق ہے اور تمام سیاسی جماعتوں میں صرف وہی زیادہ قابل اور عوام کے خدمت گار ہیں۔ یہ سیاسی نعرہ جمہوریت کی نفی ہے اور بادشاہت کا عکاس ہے۔ اس نعرے نے تمام جماعتوں کو خوفزدہ کر دیا ہے اور وہ قبل از وقت ملک کے ماحول کو گرما کر الیکشن کی مہم شروع کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ یاد رہے پاکستانی عوام نظام کی تبدیلی پر کچھ سوچتے ہیں یا نہیں مگر چہروں کی تبدیلی کے لئے ضرور سوچتے ہیں اور ایک ہی چہرہ دیکھنے کے ہر گز متمنی نہیں۔ پاکستان جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں مختلف پارٹیاں اور افراد حکومت میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سال پورے ہونے کی وجہ پانچ سال کے دوران دو وزرائے اعظم کی تبدیلی تھی۔ اس سے حکومتی پالیسیوں پر کوئی فرق تو نہیں پڑتا مگر لوگ تھوڑا سا ریلیف ضرور محسوس کرتے ہیں کیوں کہ نئے عہدے دار سے نئی امیدیں بندھ جاتی ہیں اور وقت اچھا گزر جاتا ہے۔ یاد رہے ایسا ہی بیان 2008ء میں سینئر سیاسی رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل مشرف کو بار بار صدر منتخب کرنے کے بارے میں دے کر مسلم لیگ (ق) سے لوگوں کو متنفر کر دیا تھا۔ اگر آخری دن جنرل مشرف (ق) لیگ کو ووٹ ڈالنے کو نہ کہتے تو الیکشن کے نتائج مختلف ہوتے۔
اگرچہ کئی میدانوں میں ملک کی تقدیر بدلنے والے ترقیاتی منصوبے تیزی سے جاری و ساری ہیں مگر زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو ترسے عوام کے لبوں پر بہت سے شکوے اور آنکھوں میں سوالات بھی موجود ہیں۔ آئے روز ملاوٹ شدہ غذا اور غیر معیاری ادویات کی خبریں ہر فرد کا سکون برباد کئے دیتی ہیں۔ پانامہ الزامات اپنی جگہ عوام کو گو مگو کی کیفیت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں کیونکہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، کہیں نہ کہیں تو غلطی موجود ہے ورنہ عدالت میں آئے روز بحث و تمحیص کیوں جاری رہتی۔ پہلے پانامہ صرف سیاست دانوں اور پڑھے لکھے لوگوں تک محدود ایشو تھا مگر اب کم پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کے بارے میں سوال کرتا دکھائی دیتا ہے یعنی یہ ایشو زبانِ زدِ عام ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں اسلام آباد کی حکومت کے جوابی بیانات اپنا اثر کھو رہے ہیں۔ ملک میں ہنگامی حالات پیدا کرنے کے لئے بہت سی قوتیں اور گروہ اپوزیشن جماعتوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جس کا نتیجہ جمہوریت کے نقصان کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ یہاں بات صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ نظام اور ریاست کی ہے۔ ملک کو چلتے رہنا چاہئے۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے اور سیاسی جماعتوں کا بھی مستقبل اسی میں پنہاں ہے۔ اگر ایک فرد کی وجہ سے پوری حکومت پر سوالیہ نشان اور بے اعتباری کی کیفیت ثبت کر دی جاتی ہے تو اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ملک کے مفاد میں فیصلہ کیا جائے۔ یقینا یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی جماعت کے بھی حق میں ہو گا۔ حکومت اس بات پر مطمئن نظر آتی ہے کہ ثبوتوں اور دیگر دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے الیکشن تک پانامہ کے معاملات لٹکے رہیں گے اور وزیر اعظم کی کرسی کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا مگر اس سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اُلٹا دن بدن لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات تقویت پکڑتے رہیں گے اور مسلم لیگ (ن) کی تمام تر کارکردگی اس ایک معاملے کی نذر ہو جائے گی۔ الیکشن کے دنوں میں اپوزیشن کے پاس یہ سب سے بڑا ہتھیار ہو گا جس کا درست جواب بہرحال بہت مشکل ہو گا۔ اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ وزیر اعظم اپنی پارٹی کے کسی شفاف پروفائل کے فرد کو اس منصب پر فائز کر دیں اور خود پوری توجہ مسلم لیگ ن کی تنظیم سازی پر صَرف کریں اور اپنے وزرا کو بھی پابند کریں کہ وہ اپوزیشن کے تند و تیز جملوں کا تلخی سے جواب دینے کی بجائے نیک نیتی سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔ بائولر بیٹسمین کو غصہ دلانے کے لئے بہت سے حربے استعمال کرتا ہے کیوں کہ اس کے پاس کئی اوور ہوتے ہیں لیکن بیٹسمین کی ایک غلطی اسے میدان سے باہر کر دیتی ہے۔ حکومتِ وقت کو اس وقت خود کو بیٹسمین سمجھ کر اپنی پوری توجہ اننگز کی طرف مرکوز رکھنی چاہئے۔

.