لفظوں کا غلط استعمال ۔ رسوائی کا سبب

January 22, 2017

جمعہ کے روز سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے درست طور پر بعض الفاظ اور فقروں کو پارلیمانی کارروائی سےخارج کرنے کا حکم دیا مگر اچھا ہوتا کہ قابل اعتراض الفاظ اور جملوں کی حوصلہ شکنی کا کوئی عملی پہلو بھی ذمہ دار حلقوں کی طرف سے سامنے آتا۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی رویوں اور سماجی کلچر میں کچھ عشروں سےاس احتیاط کی کمی نظر آرہی ہے جو شائستہ سماجوں کا خاصہ کہلاتی ہے۔ جمہوری پارلیمانی نظام میں چونکہ منتخب ایوان عوام کے نمائندوں پر مشتمل ہوتے ہیں اس لئے ان کے رویے کے بیک وقت دو مفاہیم سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ایوان میں استعمال ہونے والے الفاظ اس پورے معاشرے کی سوچ اور ذہنیت کے عکاس ہیں۔ دوسرا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ عوام کی رہنمائی کے دعویدار افراد یا گروہ اپنے مکتب فکر کے لوگوں کو کس رویے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں آیا ۔ اس لئے یہاں سیاسی، سماجی ومذہبی رہنماؤں اور میڈیا کے لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ الفاظ کے انتخاب اور استعمال میں اسلامی تعلیمات کے اس قانونی اصول کو پیش نظر رکھیں کہ ’’انسان اپنے الفاظ سے پکڑا جاتا ہے‘‘۔ یہ با ت بھی ملحوظ رکھنے کی ہے جس طرح اسکول کے طلبہ کے لئے ٹیچر قابل تقلید نمونے کی حیثیت رکھتا ہے اسی طرح عام لوگ لیڈروں اور مقبول شخصیات کے انداز گفتگو اور طرز عمل سے متاثر ہوتے ہیں۔ جمہوریت اختلاف رائے اور آزادی ِاظہار کے جو حقوق دیتی ہے ان کے ساتھ شائستگی، احساس ذمہ داری اور مہذبانہ طرز عمل کو بھی لازم کرتی ہے ۔ اس لئے نہ صرف ہمارے لیڈروں کو اپنے رویوں سے شائستگی کا پرچار کرنا چاہئے بلکہ سیاسی پارٹیوں اور ایوانوں کی کارروائی چلانے والوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوری اقدار سے انحراف کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے ساتھ محاسبہ کی ایسی روایات قائم کریں جنہیں پیش نظر رکھ کر بعد میں کوئی ویسا ہی قابل اعتراض رویہ اختیار نہ کرے۔ جمہوریت صرف انتخابات لڑنے اور جیتنے کا نام نہیں، یہ ان روایات کے تحفظ کا بھی نام ہے جن سے قوموں کے مہذب ہونے کا پتہ چلتا ہے۔


.