فادر ڈے

January 22, 2017

یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں ہرسال جون کے تیسرے اتوار کو فادرڈے منایا جاتاہے۔ اس دن تمام باپ اپنی اولاد کی طرف سے تحفے ملنے کی امید کرتے ہیں۔ اس دن ان بوڑھے والدین جوOLD HOUSEیعنی بوڑھوں کی سرکاری رہائش گاہوں میں رہتے ہیں ان سے ملنے کے لئے بہت رش ہوتا ہے۔ بوڑھے باپ پورا سال اس دن کا انتظارکرتے ہیں۔ پھر بھی بہت سی اولادیں اس دن بھی ملنے آنے کے بجائے کوریئر کے ذریعے اپنا تحفہ بھیجنے کو ہی کافی سمجھتی ہیں ۔اور بعض اولادیں ملنے اور تحفہ بھیجنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتیں ۔وہ بوڑھا سارا دن بے چینی سے اکیلا انتظار میں گزار دیتا ہے ۔پھر دل میں حسرت لیے بستر پہ جا لیٹتا ہے حالانکہ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جب وہ جوان تھا تو اس نے بھی یہی کردار اپنے والدین کے بڑھاپے میں اداکیا تھا ۔18سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد وہاں جوانوں کو والدین اچھے نہیں لگتے وہ اپنی دنیا میں مست رہنا چاہتے ہیں۔والدین کی روک ٹوک بُری لگتی ہے اورجب یہ والدین ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں تو ان کی خدمت کرنے کے بجائے ان کو اولڈ ہائوس میں چھوڑ آتے ہیں جہاں حکومت ان کو رہائش مہیا کرنے کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ان کا علاج معالجہ بھی کرتی ہے اس کیلئے اچھے اچھے پرائیویٹ اولڈ ہاؤ سز بھی ہوتے ہیںجو بوڑھے والدین امیر ہوتے ہیں وہ ان میں جا کر آباد ہوجاتے ہیں اور ان کی خصوصی دیکھ بھال کیلئے نرسیں ہوتی ہیں ان کو نہلانے سے لے کر ہوا خوری ، چہل قدمی بھی وہ کراتی ہیں ۔ یہ اس معاشرے کا وتیرہ ہے جو سالہاسال سے وہاں جاری ہے ۔ اس کی مناسبت سے فادر ڈے ، مدر ڈے ، ویلنٹائن ڈے ہر سال بڑے زور سے منایا جاتا ہے ۔ ان خصوصی دنوں میں ان ممالک میں خصوصی سیل اسی مناسبت سے لگائی جاتی ہے ۔ عموماً 25فیصد سے لیکر 50فیصد تک رعایت دی جاتی ہے ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خریداری کر یںاور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق تحائف خرید کر اپنے والدین اور پیاروںکو دے کر خوش کر سکیں۔ جون کے مہینے میں فادر ڈے کی وجہ سے اسٹوروں، دکانوںمیں بڑے بڑے بینرز آویزاں ہوتے ہیں۔
ان پر مدر ڈے، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے لکھا ہوتا ہے۔ ان حصوں میں جہاں فادر ڈے کی نسبت سے چیزیں رکھی جاتی ہیں اس جگہ کو خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے۔ 21جون کو ریسٹورنٹس، مے خانے (Bars) سب بھرے ہوتے ہیں۔ پہلے سے بکنگ کرانی پڑتی ہے پھر دوسرے دن یہ دوبارہ اجنبی بن کر پورا سال گزارتے ہیں ۔ اسلام اس سے بالکل مختلف نظریہ پیش کرتا ہے ، وہ والدین خصوصاً بوڑھے والدین کی خدمت لازمی قرار دیتا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں پورے سال والدین کی خدمت ہوتی ہے ۔ بہت اقلیت میں لوگ ہونگے جو اپنے بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھتے ہونگے ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو اچھی نگاہ سے نہیںدیکھا جاتا۔ یہ نوجوان اکثر اپنی جوان بیویوں کے دباؤ میں آکر خدمت سے کتراتے ہیں ۔پھر ہمارے ملک میں کوئی اولڈ ہاؤس بھی نہیں ہے ، صرف ایدھی فاؤنڈیشن والوں نے اپنا گھر بنا کر کافی حد تک مسئلہ حل کر دیا ہے ۔ حکومت نے آج تک ان بوڑھوں کی تکالیف دور کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ ان ممالک میں ایک بہت ہی اچھا رواج ہے ، جب بھی کوئی خوشی کا موقع ہوتا ہے تو پوری قوم مل کر اس میں حصہ لیتی ہے ۔ مثلاً کرسمس ہو یا نیو ائیر، مدر ڈے، فادر ڈے ، ویلنٹائن ڈے ہو سب مل کر اپنا اپنا حصہ نبھاتے ہیں۔ رعایتی سیل لگا کر دکاندار بھی اپنا حق ادا کرتے ہیںاور اپنا کاروبار بھی بہت بڑھاتے ہیں۔ خریدار بھی خوشی خوشی آسانی سے اپنا تہوار مناتا ہے ۔ مگر ہمارے مسلمان ممالک ان تہواروں کے موقع پر ناجائز طریقے سے دام کم کرنے کے بجائے بڑھا دیتے ہیں۔ خصوصاً رمضان المبارک میں جو نیکیوں کا مہینہ ، روزے رکھنے اور عید پر خوشیاں منانے کے لئے ہوتا ہے ، اتنی مہنگائی کرتے ہیں کہ ذکر کرتے ہوئے شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ تمام کھانے پینے کی اشیاکی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ روزے دار مجبوراً کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے لئے مجبور ہوتا ہے ۔ حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی ہے کہ اس سال رمضان میں ہم دام نہیں بڑھنے دیں گے۔ مگر چند ہی دن بعد ان دکانداروں کے ہاتھوں مجبور ہو جاتی ہے۔ عمرے کے لئے جانے والوں کو کرائے دگنے ادا کرنے پڑتے ہیں ۔وہاں ہوٹل کے کرائے عام دنوں کے مقابلے میں 10دس گنا بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ گویا مسلمان مسلمان کے ہاتھوں لٹتا ہے ۔ کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتا ۔ اگر یہی عمل ان گوروں کے ملک میں کیا جائے تو عوام کا سیلاب حکومت کے خلاف ہو کر اپنی آواز بلند کرتا ہے ۔ وہ ایسے مہنگائی نہیں کر سکتے ۔ قانون حرکت میں آجاتا ہے ۔ ان غیر ممالک نے اسلام کی بہت ساری اچھائیاں اپنا کر عوام کو سہولتیں مہیا کی ہیں۔ یہ بے روزگاری الاؤنس یا غریبوں کی مدد کرنے کا طریقہ انہوں نے اسلام سے لیکر اپنایا ہے ۔ یہ بیت المال کا نظام اسلام نے ایجاد کیا تھا۔ آج کسی بھی مسلمان ملک میں بیت المال کا نظام نہیں ہے ۔ البتہ تمام گوروں کے ممالک میں یہ نظام قائم ہے ۔ وہاں کوئی بے روزگار یا غریب حکومت سے فوری مدد کی درخواست کر سکتا ہے ۔
حکومت اس کو رہنے کے لئے مکان ، کھانے کے لئے الاؤنس دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں عدل و انصاف ہر ایک کو ملتا ہے ، خواہ وہ غریب ہو یا امیر۔ ہر شخص قانون کی نگاہوں میں برابر ہے ۔ ہمارے مسلمان ممالک میں بد قسمتی سے انصاف صرف بڑے لوگوں تک محدود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلسل پستی کی طرف جارہے ہیں۔



.