اسفند یار ولی خان کا الزام

January 24, 2017

کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہیںبیشمار پابندیوں، رکاوٹوں اور مجبوریوں کی شکایات کے باوجود بعض پابندیاں اور رکاوٹیں بے معنی ہوتی ہیں۔ عائد نہیں کی جا سکتیں۔ مثال کے مطابق تحریک انصاف کے چیف عمران خان کی سیاسی حکمت عملی میں دھرنوں کی موجودگی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ ان کی خواہشات کی سڑک پہ ’’سپیڈ بریکر‘‘ بھی نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ پاکستان کی قومی سیاست اور حکومت کی اگلی ٹرم میں اپنے آپ کو وزیراعظم کے طور پر اقتدار کا حلف اٹھاتے ہوئے دیکھ سکیں اور اپنی اس خواہش کی راہ میں انصاف کے تقاضوں کو حائل ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھ سکیں اور یہی خواہش شائد بلاول بھٹو زرداری اور ان کے بزرگوں اور اتالیقوں کی بھی ہو سکتی ہے۔ عمران اور بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ اور بہت سے پاکستان کے سیاست باز یہ سوچ سکتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف اور عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے ہیں تو ان میں ایسی کوئی خرابی ہے جو اس خواہش سے دور رہے اور کچھ بعید نہیں بلکہ عین ممکن ہے سرحدی گاندی کے پوتے اور خان ولی خان کا بیٹا اسفند یار ولی خان کے دل کے کسی گوشے میں کوئی ایسی ہی خواہش چل رہی ہو۔ اس کا اندازہ اسفند یار ولی خان کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے خان عمران خان کو خادم پنجاب شہباز شریف کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے سب سے بڑا سیاسی خادم قرار دیا ہے بلکہ ان کی خدمت میں تمغہ خدمت پیش کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے۔اپنے دادا اور والد مرحوم کی برسی کے موقع پر اسفند یار ولی خان نے بتایا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار سے زیادہ سیاسی خدمت میاں نواز شریف کی خان عمران خان نے کی ہے۔ ان کی اس خدمت کا اعتراف کیا جائے بلکہ اس سلسلہ میں عمران خان کو وزیراعظم کی خدمت کا تمغہ پیش کیا جائے۔ اسفند یار ولی خان سے پہلے بھی کچھ لوگ عمران خان کی ان سیاسی خدمات پر روشنی ڈال چکے ہیں۔ جو انہوں نے اپنے دھرنوں کے کبھی نہ ختم ہونے والے سیاسی منشور پر عملدرآمد کے سلسلے میں میاں نواز شریف کی حکومت کو مستحکم بنانے کے سلسلے میں سر انجام دی ہیں۔ اس معاملہ میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والے خاموش نہیں رہے۔ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان کے دھرنوں نے ملک کی حکومت مخالف جماعتوں کو میدان عمل میں اگر حکومت کا تخت الٹنے کی راہ روکی ہے اور یوں نواز شریف کی حکومت کو اپنے اقتدار کی ٹرم پوری کرنے کی سہولت فراہم کی ہے۔ اگر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے بھوکے ننگے ، بے روزگار اور مہنگائی کے مارے ہوئے لوگ میدان عمل میں آ جاتے تو حکومت کو بدل کر رکھ دیتے۔اسفند یار ولی خان اپنے آبائو اجداد کی طرح صوبہ سرحد یا خیبر پختون خوا کو اپنی گدی یا وراثت سمجھتے ہیں تو کچھ غلط نہیں ہے۔ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے اسفند یار ولی خان کی سیاسی گدی پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کی وراثت پر ناجائز قبضہ کر لیا ہے۔ جو اسفند یار ولی خان کبھی معاف نہیں کر سکتے۔ مگر عمران خان کی تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمن کی سیاسی گدی اور وراثت پر بھی قبضہ کیا ہے ۔مگر غور کیا جائے تو عمران خان سے یہ قبضہ میاں نواز شرف نے کرایا ہے۔ چنانچہ اسفند یار ولی خان کے الزام کو بابکل بے بنیاد بھی نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور اس پر غور ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف دراصل میاں نواز شریف کی حکومت کی مدد کیلئے میدان عمل میں آئی ہے۔ کل کیا ہو گا یہ کل کے حالات بتائیں گے یا کل کے حالات بتانے والے بتائیں گے۔

.