ایردوان کیلئے صدارتی نظام کی زمین ہموار

January 25, 2017

ترکی کی پارلیمنٹ نے اپنے دوسرے مرحلے کے بحث و مباحثے کے بعد آئین میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ملک میں دہرے سر والے (Double-headed) نظام کی بجائے صرف ایک سر والے( Single-Heded) نظام ہی کو اپنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملک کے موجودہ وزیراعظم بن علی یلدرم نے پارلیمنٹ میں آئین میں ترامیم سے متعلق پیش کئے جانے والے بل کی دوسرے مرحلے میں بھی بغیر کسی مشکلات کے منظوری کےبعد پارلیمنٹ میں اپنے گروپ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا گروپ ایک چٹان کی مانند تھا جس کے کسی بھی حصے کو الگ کرنے کوشش کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔آق پارٹی نے اپنے چودہ سالہ دورِ اقتدار میں بہت کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں لیکن آج کا کارنامہ ترکی کی تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ ملک میں صدارتی نظام متعارف کرانے کے اس پروجیکٹ کی بنیاد صدر ایردوان کے ساتھ ملکر میں نے ہی رکھی تھی کیونکہ ہم ملک میں دہرے سر والے نظام کے حق میں نہیں ہیں‘‘۔ اس دہرے سر والے نظام کے خاتمے کی پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد اب صدر ایردوان سات فروری سے گلی کوچوں اور میدانوں میں نکل کر اس صدارتی نظام کے بارے میں پوری قوم کو آگاہ اور عوام سے صدارتی نظام کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل بھی کریں گے۔ پارلیمنٹ میں آئین میں ترامیم کی منظوری کے موقع پر حزب ِ اختلاف کی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی نے آق پارٹی کا کھل کر ساتھ دیا اور اب آئندہ ریفرنڈم میں بھی کھل کر ساتھ دے گی۔ صدر ایردوان سے قبل ملک میں ترگت اوزال اور سلیمان دیمرل بھی صدارتی نظام متعارف کروانے کے حق میں رہے ہیں جبکہ مرحوم نجم الدین اربکان، آلپارستان ترکش نے بھی ترکی میں صدارتی نظام متعارف کرانے کا دفاع کیا تھا لیکن صدارتی نظام متعارف کرانے کی ٹھوس بنیاد ایردوان ہی کے دور میں رکھی گئی ہے۔ ترکی میں صدارتی نظام کے بارے میں ہمیشہ ہی بحث و مباحثہ ہوتاآیا ہے لیکن صداتی نظام کے بارے میں عوام کو ہمیشہ ہی منفی خیالات سے آگاہ کیا جاتا رہا اور اس نظام کو ملک کے لئے خطر ناک قرار دیا گیا۔ نئی ترامیم کے بعد پارلیمنٹ میں ارکان کی تعداد 550سےبڑھا کر 600تک کردی جائے گی۔ رکن پارلیمنٹ کی عمر 25سال سے کم کرکے 18سال کردی جائے گی۔ ارکان اسمبلی کا انتخاب ہر پانچ سال بعد کیا جائے گا اور ملک میں صدارتی انتخابات بھی اسی روز منعقد کئے جائیں گے۔ صدارتی امیدوار کا نام سیاسی جماعتوں جنہوں نے اس سے قبل کے انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کئے ہوں گے کو پیش کرنے یا ایک لاکھ ووٹروں کے دستخطوں سے پیش کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ صدر کوانتظامی اختیارات سے متعلقہ معاملات میں صدارتی حکم نامہ جاری کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ صدارتی فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے صدارتی حکم نامہ جاری کیا جا سکے گا۔صدر کو ملک میں حالتِ جنگ، انتشار، بغاوت، ملک اور ڈیمو کریسی کو سخت نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے اورملک وقوم کی سلامتی کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار کرنے والی تشدد آمیز تحریکوں کےپھیلنے کی صورت میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہوگا۔ صدر ایک یا ایک سے زائد نائب صدر نامز د کر سکے گا۔ پارلیمنٹ صدر کی کارکردگی پر نظر رکھے گی۔
ترکی کی قومی اسمبلی کے آئندہ کے عام انتخابات اور صدارتی انتخابات ایک ساتھ تین نومبر 2019ء کو ہوں گے۔ججز اوراٹارنی ہائی کونسل کا نام تبدیل کرتے ہوئے ججز اٹارنی کردیا جائے گا اور 13 اراکین پر مشتمل کونسل کے تحت دو ادارے کام کریں گے۔ کونسل کے 4 ارکان کو صدر کی جانب سے اور7 ارکان کو قومی اسمبلی کی جانب سے منتخب کیا جائے گا۔ اس طرح عدلیہ کے صدر کے ماتحت کام کرنے کا جو الزام لگایا جا رہا ہے وہ الزام بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح انتظامیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ یعنی مقننہ صدر کو منتخب نہیں کرے گی بلکہ صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے اور عوام ہی مقننہ کے نمائندوں کا براہ راست انتخاب کریں گے،وزارت قانون کا سیکرٹری کمیٹی کالازمی رکن ہوگا۔آئینی عدالت کے ارکان کی تعداد17سے کم کرتے ہوئے 15کردی جائے گی۔ فوج کے اندر صرف ڈسپلن معاملات پر مشتمل عدالتیں کام کریں گی اس کے علاوہ تمام فوجی عدالتوں کو ختم کردیا جائے گا اور اسطرح ملک میں صرف سول عدالتیں ہی کام کریں گی۔اس سے قبل ملک میں فوجیوں پر فوجی عدالتوں میں اور سویلین پر سول عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاتا تھا۔ موجودہ آئین جس میں ملک کے انتظامی اختیارات وزیراعظم سے صدر کو سونپ دیئے گئے ہیں اور وہی پارلیمنٹ کے باہر سے کابینہ تشکیل دینے کا حق رکھتے ہیں۔ ترکی میں دہرے سر والے نظام کی وجہ سے اس سے قبل صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات ابھر کر سامنے آتے رہے ہیں جس کی سب سے اہم مثال مرحوم وزیراعظم بلنت ایجوت اور صدر احمد نجدت سیزر کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات ہیں۔ اس صورت حال سے بچنے کےلئے انتظامی اختیارات صرف صدر ہی کو حاصل ہوں گے۔ مقننہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوں گی اور انتظامیہ کو قوانین میں ترامیم کے لئے بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا بلکہ یہ فرض اراکین پارلیمنٹ سر انجام دیں گے۔ اس کا مقصد پارلیمنٹ کو صرف قانون سازی تک ہی محدود کرنا ہے۔ بجٹ کے بارے میں قانونی بل صدر کی جانب سے تیار کیا جائے گا لیکن منظوری پارلیمنٹ کی جانب سے دی جائے گی۔ پارلیمنٹ ہی صدر کے اخراجات کا تعین کرے گی، تمام بین الاقوامی معاہدوں اور سمجھوتوں کی منظوری صدر سے حاصل کی جائے گی تاہم صدر کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کو بھی ان معاہدوں اور سمجھوتوں کی منظوری دینا ہوگی۔ صدر تمام اعلیٰ عہدوں پر اپنی مرضی اور منشا سے افسران نامزد کرسکیں گے اور اس کے لئے انہیں پارلیمنٹ کی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ صدر کو دو بار مسلسل صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی۔



.