ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟

January 30, 2017

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اگلے روز ملتان میں میٹرو بس سروس کا افتتاح کیا۔ اس منصوبے پر 29 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے کسی بھی شہر میں اس طرح کا یہ پہلا منصوبہ ہے۔ اس سے یقیناً ملتان شہر میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کسی حد تک حل ہو جائیگا اور ٹریفک کا رش کم ہو جائیگا لیکن ملتان میں نشتر اسپتال کے نام سے ایک سرکاری اسپتال موجود ہے، جہاں مریضوں کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ میٹرو بس سے یہ رش کم نہیں ہو گا۔ مسئلہ صرف ترجیحات کا ہے۔ موٹرویز، ہائی ویز، میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کے منصوبے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی اولین ترجیحات ہیں۔ ان کی بھی ضرورت ہے مگر نشتر اسپتال پر دباؤ ہے، میرے خیال میں اس دباؤ کو کم کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس اسپتال میں پورے جنوبی پنجاب، بالائی سندھ، جنوبی خیبر پختونخوا اور شمال مشرقی بلوچستان کے اضلاع سے مریضوں کو لایا جاتا ہے۔ انتہائی خطرناک امراض کا شکار لوگ پارکس میں پڑے ہوتے ہیں اور اسپتال میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ تمام مریضوں کو داخل کیا جا سکے۔ مذکورہ بالا تمام علاقے پاکستان کے انتہائی پسماندہ علاقے ہیں، جہاں تعلیم اور صحت سمیت بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک نشتر اسپتال ان تمام علاقوں کیلئےناکافی ہے۔ اگرچہ شہروں اور قصبوں میں دیگر سرکاری اسپتال، ڈسپنسریز اور بنیادی مراکز صحت بھی ہیں لیکن وہاں نہ تو ماہر ڈاکٹرز ہیں اور نہ ہی جدید لیبارٹریز موجود ہیں۔ ملتان میں میٹرو بس کے منصوبے کی تکمیل اچھی بات ہے۔ مگر صحت اور تعلیم کے شعبوں پر توجہ نہ دینا بہت خطرناک بات ہے۔
بحیثیت قوم ہم اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ ہمیں آزادی حاصل کئے ہوئے 70 سال ہونے والے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جو قومیں اپنی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں، صرف وہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔ قوموں کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ قومی تعمیر کے شعبوں میں انہیں کس چیز کو زیادہ اہمیت دینی ہے۔ اس وقت دنیا کے جو ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں، ہمیں ان کی قومی منصوبہ بندی اور ان کی ترجیحات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہو گا۔ قومی ترقی کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے شہریوں کا معیار زندگی بلند کیا جائے۔ معیار زندگی میں بہتری لانے کے لئے کچھ بنیا،دی اقدامات ہوتے ہیں۔ مثلاً مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کیا جائے، شرح خواندگی کو بہتر بنایا جائے، صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں اور فنون لطیفہ کی سرپرستی کرکے معاشرے کو اخلاقی اور روحانی طور پر مضبوط بنایا جائے اور ان کی softer image ظاہر کرے۔ حکومتیں اپنے منصوبے اور اپنی پالیسیاں لوگوں کی ضروریات کے مطابق بناتی ہیں۔ ان ضرورتوں کو دیکھ کر ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے۔ کچھ قوموں نے یہ محسوس کیا کہ پہلے غربت ختم ہونی چاہئے تو انہوں نے غربت کے خاتمے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ تاریخ میں کچھ قوموں نے صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر سب سے پہلے توجہ دی۔ زیادہ تر قوموں نے معیاری تعلیم کو قومی ترقی کی بنیاد بنایا۔ تاریخ میں کچھ قومیں ایسی بھی ہیں، جنہوں نے لوگوں کو ہاؤسنگ اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ سب سے پہلے حل کیا۔کہیں ہنر مند افراد پیدا کرنے، کہیں توانائی کے وسائل میں اضافے اور کہیں پانی کے ذخائر کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔ بہرحال جس چیز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، پہلے اسی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مذکورہ بالا تمام مسائل کو پس پشت ڈال کر انفراسٹرکچر اور موٹرویز کو ترجیح دی گئی ہو۔ پاکستان میں یہ تمام مسائل سنگینی کے ساتھ موجود ہیں، جن کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے لیکن وزیر اعظم کی ترجیح انفرا سٹرکچر پر رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہر طرف موٹرویز کا جال بچھایا جائے۔ موٹرویز کے بعد میٹرو بسوں اور اب میٹرو ٹرینز پر توجہ دی جا رہی ہے۔
روزانہ ایسی خبریں ٹی وی چینلز پر آ رہی ہوتی ہیں کہ اسپتالوں میں جگہ نہیں ہوتی اور مریض اسپتالوں کے باہر دم توڑ دیتے ہیں۔ کھلے میدان میں خواتین کی زچگی ہو جاتی ہے۔ اسپتالوں میں دوائیں میسر نہیں ہیں۔ غریب لوگ علاج کے بغیر تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ جس طرح نشتر اسپتال جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بڑے رقبے اور آبادی والے پسماندہ ترین علاقوں کا واحد بڑا اسپتال ہے، اسی طرح کراچی میں امراض قلب کا صرف ایک سرکاری اسپتال ہے، جہاں پورے پاکستان سے مریض آتے ہیں۔ پورے ملک میں عمران خان کے شوکت خانم جیسے cancer کے اسپتال نہیں ہیں۔ کراچی ڈھائی کڑوڑ کا شہر ہے مگر پھر بھی cancer اسپتال نہیں بنائے گئے۔ یہ ایسی مثالیں ہیں، جو صورت حال کی سنگینی کو اجاگر کرتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور جو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ انتہائی غیر معیاری ہے اور موجودہ عہد کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کہتی تھیں کہ ہمارے نظام تعلیم نے ہماری آئندہ کی نسلوں کو ماضی میں منجمد کر رکھا ہے۔ تعلیمی ادارے تو موجود ہیں لیکن وہاں تعلیم کا معقول بندوبست نہیں ہے۔ اساتذہ کی میرٹ پر بھرتیاں نہیں ہوتیں۔ یونیورسٹیز کے چانسلر کی تقرری بھی سفارش اور اقرباء پروری کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے ادارے سیاست کی آماجگاہ بن گئے ہیں۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض کا شکار ہے۔ توانائی کا بحران ہے۔ یہ بحران مجموعی قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ملک کی 40فیصد سے زیادہ آبادی کے پاس رہائش نہیں ہے اور باقی 60فیصد آبادی میں سے 50فیصد آبادی کو معیاری رہائش میسر نہیں ہے۔ صحت عامہ کے سنگین مسائل ہیں۔ زرعی پانی کی قلت وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی تعداد میں2فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ پانچ سال پہلے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستان کی کل آبادی کا 38فیصد تھے اور اب 40فیصد سے زیادہ ہیں۔ مایوسی اور سماجی انتشار نے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ فنون لطیفہ اور کھیلوں پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی اور روحانی طور پر بہت کمزور ہو گیا ہے اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے روشن خیال دانشوروں اورفنکاروںکو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور بلاگرز اغواء ہو رہے ہیں۔ میٹرو بسوں کے منصوبے ٹھیک ہیں لیکن اب 70سال بعد ہمیں بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات سے ہمارے گمبھیر مسائل حل نہیں ہوں گے، ملک اور ابتری کا شکار ہو گا۔

.