امریکی اور پاکستانی جمالِ جمہوریت

January 31, 2017

’’روسی صدر پیوٹن نے امریکی صدارتی انتخاب میں خفیہ ٹیکنالوجیکل مداخلت سے اصل انتخابی نتائج تبدیل کراکے اپنے حامی صدارتی امیدوار کو صدر بنا کر 4سال کے لئے وائٹ ہائوس میں داخل کردیا‘‘ یہ وہ الزام ہے جو ٹرمپ کے حامیوں کے مطابق مخالفین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کا صدمہ کم کرنے کے لئے لگایا، تاہم یہ سیاست دانوں یا میڈیا کاالزام ہی نہیں اسے درست ثابت کرنے کےلئے امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹس کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے۔ اور تو اور برطانوی وزیراعظم بھی متنازع اور منتخب بھی امریکی صدر کو سمجھانے واشنگٹن پہنچے کہ ’’پیوٹن سے بچ کر رہنا‘‘ یہ اندازِ سفارت امریکہ میں پیوٹن پر لگے الزام کی توثیق منجانب برطانیہ معلوم نہیں دیتی؟
حلف برداری کے دوران اوروائٹ ہائوس میں براجمان ہونے کے بعد بھی ٹرمپ کی جیت کے خلاف امریکیو ں خصوصاً خواتین کے ملک گیر مظاہروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو متنازع صدر بنا دیاہے، وگرنہ صدارتی طرز ِ جمہوریت کی انتخابی مہم میں ہر دو صدارتی امیدوار کروڑو ں ووٹروں کی حمایت اور مخالفت کے ساتھ بطور امیدوار تو متنازع ہوتے ہیں، لیکن جوبھی جیت جاتا ہے اس کے مخالفین کی مخالف رائے کے باوجود جیتنے والا صدارتی امیدوارپورے ملک کا منتخب صدربن جاتا ہے، جس کا مطلب متفقہ صدر۔ جیسے پارلیمانی طرز ِ حکومت کے حامل ملک میں ٹاپ ٹو پارٹیوں میں سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت، حکومتی جماعت میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن امریکہ عجب کیفیت سے دوچار ہوا ہے۔ امریکہ کے لئے یہ قیامت نہیں کہ روسی صدر اس کے عام انتخابات میں مداخلت کرکے من پسند صدارتی امیدوار کو منتخب صدر بنواسکتا ہے؟ حالیہ امریکی انتخاب سے آج تک کی صورتحال واضح نہیں کر پا رہی کہ امریکہ میں یہ قیامت تو برپا ہوگئی؟ اگرچہ ڈونلڈٹرمپ کے حلف اٹھانے ، وائٹ ہائوس میں رہائش پذیر ہونے اور اپنے انتہائی متنازع انتخابی وعدوں اور دعوئوں کے تیزی سے فیصلوں میں ڈھلنے کے بعد ان کی حیثیت مسلمہ منتخب صدر کی ہوگئی ہے، لیکن یہ تماشہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھا جارہا ہے کہ منتخب صدر شدت سے متنازع بھی اور منتخب بھی، اسے امریکہ میں بھی دونوں حیثیتیں حاصل ہوں اور دنیا میں بھی۔
صدارت کا حلف اٹھانے پر اور اس کے بعد بھی ٹرمپ صاحب کی صدارت کے خلاف ہماری پی ٹی آئی طرز کے (بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر) جو لاحاصل مظاہرے اور دھرنے ہوئے اورجاری ہیں، وہ فقط ’جمہوریت کا حسن‘‘ ہیں، جسے خود صدر ٹرمپ نے بھی یہ کہہ کر ہی مانا ہے۔ جیسے امریکیوں کی بھاری تعداداپنے صدر کی متنازع ترین حیثیت پر ان کے خلاف بے نتیجہ احتجاجی رویہ اختیار کئے امریکی نظام جمہوریت کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اسی طرح ہم بحالی ٔ جمہوریت (2008) کےبعد سے بہتر آمریت کے مخالف بدترین جمہوریت کو مسلسل برداشت کر رہے ہیں۔ ایک باری پوری بھگتی دوسری کے بھی 4سال برداشت کر رہے ہیں۔ تاہم عمران خان نےامریکی احتجاجی انداز اختیار کیا ہوا ہے۔ یایوں کہہ لیںکہ امریکیوں نے یہ انداز ِ احتجاج پاکستان کے حکومت مخالفین سے لے لیا۔ بہرحال ہر دو ممالک کا ’’جمال جمہوریت‘‘ اب جمہوریت کی عالمی تاریخ کانیا اور دلچسپ باب ہے۔ جس میں پاکستان اور امریکہ ایک پیج پرہیں۔اب پاکستانی یہ دلیل ضرور دے سکتے ہیں کہ ہم جمہوریت میں امریکہ کے برابر آگئے اور احتجاجی امریکی یہ کہہ کر اطمینان حاصل کرسکتے ہیں کہ ہم نے اپنی جمہوری اقدار اور کلچر کی حفاظت کرنی ہے خواہ ہمیں پاکستانی اسٹائل کے جمال جمہوریت کے مظاہرے ہی کیوں نہ کرنا پڑیں۔
تاریخ سے کوئی سبق سیکھے نہ سیکھے، تاریخ عظیم اسباق سے بھری ہوتی ہے۔ یہ بھی درست نہیں کہ ’’تاریخ سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھتا‘‘ یہ بھی تاریخ کی ہی حقیقت ہے کہ جس ملک نے تاریخ کے اسباق سے جتنا سیکھا وہ اتنا ہی مستحکم، محفوظ اور ترقی یافتہ ہوا، جبکہ تاریخ سے لاپروائی کے مرتکب اور اس کی غلطیوں کو باربار دہرانےوالے اس قابل ہی نہیں رہتے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کریں۔ مورخین نے دیکھنا ہے کہ پاکستانیوں کا برداشت مسلسل اور مظاہروں کی شکل میں امریکیوں میں پائے جانے والا جمال جمہوریت اور پاکستان کو کیا دیتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے احتجاجی عوام اسٹیٹس کو کو توڑنے کے متمنی ہیں جس کے لئے پاکستانی سوسائٹی کے ایک بڑے حصے کا انداز امریکی یا امریکہ کا پاکستانی طرز کا بھی ہے یعنی جمال جمہوریت کے مظاہرے بذریعہ جلسہ و دھرنا تاہم حکومتوں کا یہ طرز ِ عمل مختلف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ چین اور دوسرے ممالک کی برآمدات کو کم تر کرکے اپنی صنعت کے فروغ کی طرف دوبارہ آنا چاہتی ہے لیکن پاکستان کی ٹیکسٹائل ملز بھی بیرون ملک کاروبارشروع کرچکی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ ملکی معیشت میں اہم مقام سے حاصل غیرملکی آئی ٹی ایکسپرٹس اور میڈیکل اور انجینئرنگ شعبے کے پروفیشنلز کی جگہ جگہ زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو کھپانے کے پروگرام کا عزم کئے ہوئے ہے۔ ہم اپنے شہروں کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لئے ترکی اور چین جیسے عظیم دوستوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمران سوئس بنکوں میں موجود پاکستان کا لوٹا مال واپس لانے کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں، ٹرمپ انتظامیہ دوسرے ملکوں کی ’’حفاظت‘‘ کا امریکی سرمایہ واپس امریکہ لانے کی پالیسی شروع کرنے کو ہے۔ جمال حسن کے ان مظاہروں میں پاکستان اور امریکہ میں ایک مماثلت اور ہے کہ ٹرمپ صاحب بھی ہمارے طاقتور حکمرانوں سے متاثر ہو کر یا اپنی ہی حب اولاد سے وائٹ ہائوس کواپنا ہی ہائوس سمجھتے نظرآ رہے ہیں۔ ان کا دفتر پہلے ہی روز ڈیئر اورگرینڈ پاپائے روم کا منظر پیش کر رہا تھا۔ خیر سے اپنے د اماد اور بیٹے بیٹیوں کو وہ حکمرانی میں شیئر کراتے بھی نظر آ رہے ہیں، لیکن اس میں وہ پاکستانی حکمرانوں کا مقابلہ نہ کرپائیں گے کہ پاکستان میں جمہوریت کے حسین پہلو کا کوئی ثانی نہیں۔ہوگا تو کسی کسی آمریت میں ہوگا جیسے شام، شمالی کوریا یا کیوبا۔ لیکن بادشاہوں کو تو حصہ حکمرانی دینے میں ٹرمپ صاحب خاصے فراخدل نظر آئے ہیں۔ بہرحال ہر دو ممالک میں حسن جمہوریت کے اپنے اپنے رنگ بھی ہیں اور مشترکہ بھی۔ ایک فرق یہ ہے کہ ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی اپنے کاروبار بندکرلئے اور ہمارے حکمرانوں کے کتنے ہی نئے بزنس کی نشاندہی پاکستان سے باہر ہوئی۔ اس مرتبہ لندن یا پاناما نہیں دبئی اور قطر میں سونا چاندی کا چھپا کھیل باہر آگیا۔ پاکستان اور امریکہ میں جمہوریت کا ایک غالب ہوتا رنگ یہ ہے کہ پاکستان میں بحالی ٔ جمہوریت (2008) کے بعد غربت خوب پھلی پھولی اور امریکہ میں 9/11کے بعد۔ اُدھر آکوپائی وال اسٹریٹ موومنٹ اِدھر بے نظیر انکم سپورٹ اور سستی روٹی پروگرام۔ اب ہماری حکومت بھی اور ٹرمپ انتظامیہ بھی پرعزم ہیں کہ وہ اپنے اپنے عوام کو بھی امیر بنائیں گے۔ پاکستان میں تو میٹرو اور اورنج ٹرین سے اس کا آغاز ہوا چاہتا ہے لیکن ٹرمپ نے تو بیچارے غریبوں کا ’’اوباما کیئر‘‘ بھی بند کردیا۔

.