امریکہ کی موجودہ صورتحال

February 12, 2017

ہم جب اسکول میں انٹرویل میں کینٹین یا ریسٹورنٹ میں جاتے تھے تو اکثر ہم میں سے کوئی ایک بل دیتا تھایا جس نے دعوت دی ہو وہ بل ادا کر دیتا تھا۔ البتہ جب ہم الگ الگ جاتے تو خود ہی بل ادا کر تے تھے۔ مگر جب کالج میں آئے تو نئے ہونے کے سبب الگ ہی کینٹین میں جاتے تھے۔ مگر جب ایک گروپ میں شامل ہوئے تو 4پانچ لڑکے تھے جو ہم میں سینئر تھا اُ س نے ٹیبل پر بیٹھنے سے پہلے کہا کہ آج ہم لوگوں کا پہلا دن ہے ، گو کہ ہم ساتھ آئے ہیں مگر امریکن سسٹم چلے گا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ امریکن سسٹم کیا ہے ؟ تو اُس نے کہا کہ ہم سب اپنا اپنا بل ادا کرینگے ۔ ہم میں سے ایک لڑکا کافی امیر تھا اُس نے کہاکہ یہ ہماری روایات نہیں ہیں ۔ میں آج بل ادا کر دیتا ہوں ، کل کوئی اور ادا کر دے۔ اس طرح اپنی اپنی باری آنے پر ایک ایک کر کے ادائیگی ہو جائے گی۔ وہ سینئر نہیں مانا اور اس طرح سب لڑکے الگ الگ ٹیبلوں پر چلے گئے اور کھا پی کر اپنا اپنا بل ادا کیا۔ تب پتا چلا کہ امریکن سسٹم کس کو کہتے ہیں۔ یعنی نہ کسی پر احسان کرو ، نہ کسی کا احسان لو۔ آپس میں ایک ہونے کے بجائے اپنی منزل خود تلاش کرو۔ اس کو خودغرضی بھی کہہ سکتے ہیں، گویا ہر ملک کا اپنا نظام ہوتا ہے ۔ ہم میں سے کسی نے بھی نہ امریکہ دیکھا تھا ، صرف سن کر اس کو بہتر سسٹم کا نام دے رکھا تھا۔ 1970 میں پہلی مرتبہ امریکہ کے شہر شکاگو جانے کا اتفاق ہوا ، ایک ہفتے کی ٹریننگ تھی ۔ جب الوداعی ملاقات میں اس کمپنی کے سربراہ نے مجھے بلایا اور سمجھایا کہ تم نوجوان ہو ، پہلی مرتبہ نیو یارک جارہے ہو ، چند نصیحتیں یاد رکھنا ۔ اوّل رات کو دیر سے ہوٹل سے نہ نکلنا ، جیب میں 100ڈالر سے زیادہ نہیں رکھنا ، اندھیری گلیوں میں ہر گز نہیں جانا ۔ اگر کوئی طاقتور پارک میں تم کو دھمکائے اور لوٹنے کی کوشش کرے تو پیسے بلا چوں چراں اس کے حوالے کر دینا ۔ شراب خانے (بار) سے نکلنے والی خواتین سے دور رہنا وغیرہ وغیرہ۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ امریکہ ہے یا کوئی خطرناک شہر نیو یارک ہے ۔ اس سے تو ہمارا کراچی روشنیوں کا شہر ہے، امن و امان میں امریکہ سے بھی بہتر ، یہ کیسے ملک میں ہم پھنس گئے ۔ کام بھی ضروری تھا ، نیویارک پہنچ گئے۔ ایک دوست نے بھی ان باتوں کی تصدیق کی بلکہ اس نے مذاق میں کہا کہ نیویارک کے متعلق مشہور ہے کہ اندھیرا ہوتے ہی لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اور ٹوکیو میں صبح ہوتے ہی لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے جاپان اتنا مہنگا ملک ہے ، جو بھی چیز آپ خریدیں گے بہت مہنگی خریدنی پڑے گی۔ خیر ایک ہفتے کے بعد 2دن واشنگٹن میں بھی قیام تھا۔میں وائی ایم سی اے کاممبر تھا۔ لہٰذا پیسے بچانے کے لئے وائی ایم سی اے میں ٹھہرا ۔ صبح اُٹھا تو معلوم ہوا کہ کمرے میں باتھ روم نہیں ہے بلکہ باتھ روم کونے میں قطار سے بنے ہوئے ہیں۔ راستے میں تھا تو دیکھا کہ لوگ پُر فضا کمروںسے نکل کر باتھ روم جارہے ہیں۔ شاور قطار در قطار تھے ، ہمیںکبھی اس طرح کے ہوٹل میں قیام کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ ڈر اور خوف سوار رہا ، ہر جگہ کالوں سے ڈر ہی لگتا رہا ، پھر آہستہ آہستہ وہ ڈر ختم ہو گیا۔ بار بار 2جماعتی نظام کی وجہ سے حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں ۔ امریکہ میں بے پناہ امیگرنٹس 1970ء سے لے کر 2016ء تک کھلے عام قانوناً اور چھپ چھپا کر پڑوسی ممالک سے روزگار کی تلاش میں آتے گئے ۔ گورے کم کام کرتے تھے ، یہ امیگرنٹس کم تنخواہ پر زیادہ کام کرتے تھے ، لہٰذا وہ گوروں سے بھی آگے بڑھتے گئے مگر امریکہ میں آپ کسی سے تفریق نہیں کر سکتے ۔ یہ غیر قانونی ہے ، کسی کی بھی حکومت ہو تفریق نہیں ہو سکتی ۔ مگر جب سے ٹرمپ انتظامیہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے اس وقت سے ہر امیگرنٹ خواہ وہ امریکن پاسپورٹ رکھتا ہو ، اب وہ اندر سے خوفزدہ ہے ۔ خصوصاً مسلمان ممالک کے باشندے سب خوفزدہ ہیں۔ جس طرح 9/11کے بعد امریکہ میں داخلے کے وقت گھنٹوں امیگریشن پر سوالات کی بوچھاڑ ہوتی تھی اب دوبارہ وہی طرزِ عمل دیکھنے میں آرہا ہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن کمپین میں کھل کر 28فیصد اقلیت جس میں مسلمان ، اسپینش، خصوصاً میکسیکو اور چین سے متعلق قوانین سخت سے سخت کرنے کا جووعدہ کیا تھا ایک ایک کرکے ان کو صدارتی آرڈرکی شکل میں نافذ کرنا شروع کر دیا ہے ۔ جس سے خود ان کی عدلیہ اور خصوصاً 4بڑی ریاستیں انکاری ہیں ۔ پہلے ہی دن سے ان کے خلاف جلسے جلوس ہر جگہ نکل رہے ہیں۔ خود ان کی پارٹی بھی ان سرکاری آرڈروں کی حامی نہیں ہے ۔ میکسیکو اور چین نے ان کی تجاویز مسترد کر دی ہیں۔ تہران نے امریکیوں کے آنے پر اسی طرح کا ردّ عمل ظاہر کیا ہے ۔ خود یورپی ممالک فرانس، جرمنی ، برطانیہ کے حکمراں اور عوام اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ ان کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ وہ ایسا کر کے امریکہ کی کیا خدمت کر رہے ہیں۔ ایک طرف خواتین کے جلوس تو دوسری طرف مختلف تنظیمیں اس نسلی تفریق کو امریکہ کے لئے نقصان دہ سمجھتی ہیں ۔ خود روس جو ان کا مداح سمجھا جاتا تھا جس کے متعلق ناکام صدارتی اُمید وار ہیلری کلنٹن نے تو یہاں تک الزام لگایا تھا کہ الیکشن نتائج کو روس کی خفیہ ایجنسی نے ہیک کر کے ٹرمپ کو صدارتی الیکشن جتوایا ہے ۔ آج وہ روس کے صدر کے بھی خلاف ہیں۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم سے بھی ان کی جھڑپ ہو چکی ہے جو سفارتی آداب کے خلاف ہے ۔ خود ہمارے پاکستانی نژاد امریکی پاسپورٹ کے حامل افراد بھی کینیڈا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جس طرح 9/11کے وقت کینیڈین حکومت نے اپنی سرحدیں امریکی امیگرنٹس کے لئے کھول دی تھیں۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر ہمیں لاکھوں مسلمان امیگرنٹس لینے پڑے تو ان سب کو ہمارا ملک خوش آمدید کہے گا ۔ اگر یہ بے چینی زیادہ بڑھی تو ٹرمپ جو ایک کاروبای شخصیت ہیں سمجھتے ہیں کہ عوام اگر بگڑ گئے تو پھر روس کی طرح امریکہ کی ریاستیں اپنے راستے الگ کر سکتی ہیں ۔ اس سلسلے میں خود 1ہزار سے زائد سفارتی نمائندوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ آج تک امریکہ کی تاریخ میں یہ سب باتیں دیکھنے میں نہیں آئیں اور نہ ہی ایسی خوف کی فضا خصوصاًنفرت کی سیاست امریکہ کا مزاج نہیں رہا۔ امریکہ کے تھنک ٹینک بڑے ،صنعتی ادارے آگے بڑھیں اور صدر ٹرمپ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ نفرتیں ، علیحدگی اور فسادات کو جنم دیتی ہیں۔ امریکہ کا ماضی والا وقار بحال کریں ، ہر کسی سے جھگڑا مول لینا امریکی قوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔ ان کا نعرہ پہلے امریکہ ہے کوئی اور نہیں ہے ۔ مگر نسل پرستی سے اجتناب ہونا چاہئے۔




.