پنجاب حکومت اور بچوں کا میگزین

February 14, 2017

اس چھوٹی سی واردات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اربوں کھربوں کے انتہائی ٹیکنیکل میگا پراجیکٹس میں کتنی لوٹ مار ہوتی ہوگی، کتنے بڑے بڑے کھانچے لگتے ہوں گے۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ پنجاب گورنمنٹ نے جو ننھا منا معصوم سا پراجیکٹ انائونس کیا ہے، میں اس کام کے ایکسپرٹس میں سے ایک ہوں جس نے زندگی بھر یہی کام بار بار انتہائی کامیابی کے ساتھ کیا ہے۔میرے قارئین کی اکثریت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بنیادی طور پر میرا ڈیلی جرنلزم سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے نہ کبھی رپورٹنگ کی ہے نہ میں کبھی نیوز روم کے نزدیک سے بھی گزرا ہوں۔ میں تو میگزین کا آدمی تھا جس نے کیرئیر کا آغاز ماہنامہ’’دھنک‘‘ سے کیا جو70کی دہائی کا مقبول ترین اور ٹرینڈ سیٹر قسم کا میگزین تھا جس کا تمام تر کریڈٹ سرور سکھیرا صاحب کو جاتا ہے جو اس کے ایڈیٹر اور پبلشر تھے۔ میں نے’’یکے از معاونین‘‘ کے طور پر کام شروع کیا اور مختصر ترین مدت میں جائنٹ ایڈیٹر ہوگیا۔’’دھنک‘‘ کے بعد’’تصویر‘‘ سے لے کر ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ تک اتنے میگزینز کا ایڈیٹر رہا کہ صرف نام لکھوں تو کالم کم پڑ جائے۔ یہاں تک کہ دو ڈھائی سال فیڈرل گورنمنٹ کے میگزین’’السیف‘‘ میں بطور ایڈیٹر کام کیا لیکن اسلام آباد پسند نہ آنے کے سبب استعفیٰ دے کر لاہور واپس آگیا۔ضمناً یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ’’السیف‘‘ جتنا مہنگا، رنگین اور گلیمرس میگزین پاکستان کی تاریخ میں کبھی شائع نہیں ہوا۔ اس کے ادارتی نہیں انتظامی امور بھی میں ہی دیکھتا تھا یعنی میگزین سے متعلق ہر شعبہ کا خاصا تجربہ ہے۔پھر حادثہ یہ ہوا کہ پکڑ دھکڑ کر زبردستی مجھے روزنامہ ’’مساوات‘‘ کا ایڈیٹر بنادیا گیا۔ اخبار کی مالی حالت ایسی تھی کہ اچھا مہنگا کالم نگار افورڈ نہیں کرسکتا تھا سو مجبوری کے عالم میں مجھے’’چوراہا‘‘ کے عنوان سے خود کالم شروع کرنا پڑا جسے بے تحاشا پذیرائی ملی اور یوں کالم نگاری کمبل ہوگئی اور میں ماہناموں کی جھیل سے نکل کر روزناموں کے سمندر میں آگیا۔اس ضروری پس منظر کے بعد چلتے ہیں اس تازہ ترین خبر کی طرف کہ پنجاب گورنمنٹ نے سرکاری سکولوں کے بچوں کے لئے میگزین نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں بچوں کی لکھی کہانیاں، نظمیں اور داستانیں بھی شائع کی جائیں گی۔ اساتذہ بھی اپنی آراء اور تحریریں کونٹری بیوٹ کرسکیں گے۔ ہائی اور ہائی سیکنڈری سکولوں کے بچے اپنی تحریریں بذریعہ ای میل بھی بھجواسکیں گے اور یہ میگزین گیارہ ہزار سکولوں میں بھجوایا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا سکوپ بڑھا کر کردار سازی اور شہری کے طور پر فرائض اور گڈ مینرز بھی اس میں شا مل کرلئے جائیں تو بہت بہتر ہوگا۔ باٹم لائن یہ کہ آئیڈیا بہت اچھا ہے لیکن اس سے بدنیتی بلکہ بددیانتی کی بدبو کے بھبکے اٹھ رہے ہیں کیونکہ اس پر سالانہ9کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ ا لامان الحفیظ کہ اس سے زیادہ ننگی چٹی عریاں واردات ممکن ہی نہیں۔ کوئی ہے جو مجھے اس کی فیزیبلٹی دکھائے اور سمجھائے کہ یہ9کروڑ کہاں اور کیسے خرچ ہوںگے؟ کیا پنجاب سرکار بچوں کا یہ میگزین چاندی کے اوراق پر سونے کے حروف سے شائع کرے گی؟ایک کامن سینس کی بات کہ گیارہ ہزار سکولوں کو صرف ایک ایک کاپی تو جائے گی نہیں، صرف5،5فی سکول بھی بھیجیں تو 55ہزار کی مستند سرکولیشن بنتی ہے تو55ہزار کی تعداد میں چھپنے والے میگزین کو کون ہے جو اشتہار دینا پسند نہ کرے گا۔ پھر وفاقی صوبائی حکومتوں کے اشتہارات علیحدہ تو بندہ پوچھے ان نو کروڑ روپوئوں کو ماچس دکھا کر تم نے آگ تاپنی ہے یا کرنسی نوٹوں کی کشتیاں بنا کر کیمپس کی نہر میں چلانی ہیں؟ایک تو پراجیکٹ کا سائز میٹرو یا اورنج کے مقابلے پر بہت حقیر بلکہ نہ ہونے کے برابر، اوپر سے ظاہر ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس کام کی ا لف ب کا علم نہیں ہوگا لیکن یار لوگ کام دکھاگئے ہیں۔ اصولاً تو اس میگزین کو سال کے لگ بھگ’’کمائو پوت‘‘ ہونا چاہئے جس کے منافع سے بچوں کو وظائف بھی دیئے جاسکتے ہیں۔ یہ میگزین عام سٹالز پر دوسرے بچوں کے لئے بھی قابل قبول ہوسکتا ہے یعنی اس کی اشاعت لاکھوں میں جاسکتی ہے۔ اس کا ایک حصہ انگریزی یا چینی زبان میں بھی ہوسکتا ہے(فوراً نہیں اشاعت کے سال ڈیڑھ سال بعد)۔مسئلہ نوکرو ڑروپے کی نوسر بازی کا نہیں۔ ایک انتہائی خوبصورت آئیڈیا کی تباہی کا ہے جو اس حوالہ سے گیم چینجر بھی ہوسکتا ہے کہ بچوں کی کردار سازی میں کمال کا کردار ادا کرے اور انہیں قابل رشک شہری بننے میں مدد دے۔ انہیں ٹریفک کے آداب سکھائے، حفظان صحت کے اصولوں سے آگاہ کرے، قطار بنانے کی اہمیت سے واقف بنائے وغیرہ وغیرہ وغیرہ......لیکن میں کس قبرستان میں اذان دے رہا ہوں اور جو لوگ بچوں کے دودھ میں ملاوٹ سے باز نہیں آتے، ان کے لئے جینوئن میگزین کیسے نکال سکتے ہیں؟ہم ہیں منافقت کے سمندر کی مچھلیاںوزیر اعلیٰ خود دلچسپی لیں تو بظاہر یہ بیحد معمولی اور حقیر سا پراجیکٹ میٹرو شیٹرو سے کہیں ز یادہ مثبت ،بامعنی اور نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔ پنجاب کے بچوں کے لئے تاریخ ساز تحفہ!

.