خوگر ’’تنقید‘‘ سے تھوڑا سا ’’قصیدہ‘‘ بھی سن لے

February 21, 2017

مقبول عام مصرعے میں تھوڑی سی تبدیلی پر معذرت لیکن یہ ضرورت کا تقاضا تھی۔ میں عام طور پر حکومتی فیصلوں اور کارکردگی پر تنقید کرنے کا عادی ہوں۔ میری تنقید تجربے، مشاہدے اورمطالعے کی بنیاد پر ہوتی ہے اور حب الوطنی کی مجبوری کہلاتی ہے۔ اسی طرح آج کی تعریف بھی سچائی اور حق گوئی کا تقاضا ہے کیونکہ ہر حال میں مقصد وطن کی خدمت ہے۔ تو جناب وزیراعظم صاحب، جناب آرمی چیف صاحب ویل ڈن Well done بہت خوب، بہت اچھا..... پے در پے خودکش حملوں اور دہشت گردی کے سانحات کے بعد افغانستان کی سرزمین پرموجود پاکستان دشمنوں ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار پر بمباری وقت کا تقاضا، قومی حمیت و غیرت کا اظہار، دشمن کو ملیامیٹ کرنے والی فوجی قوت کی علامت اور قوم کے غم و غصے کے ساتھ ساتھ مایوسی اور ناامیدی کے چیلنجوں سے نپٹنے کاواحد راستہ تھا۔ بین الاقوامی سیاست کی حدد و قیود اپنی جگہ لیکن آخر قوم کو مایوسی سے نکال کر امیدکے چراغ جلانابھی تو حکومتی ترجیح ہونی چاہئے۔ قوم ہر وقت نئے نئے میزائلوں کی ایجادات کی خبریں سنتی اور خوداعتمادی کے نشے میں سرشار رہتی ہے۔ یہ میزائل بقول شخصے ڈرائنگ روم کا سجاوٹی سامان نہیں۔ دشمن ہمارا خون بہاتا رہے اور ہمارے معصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتا رہے، ہمارے عوامی اور عسکری مقامات پر حملےکرتا رہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنے رہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آخر یہ قوم اپنا خون دے کر عسکری قوت کو اسی لئے بڑھاتی ہے کہ دشمن سے محفوظ رہے اور دشمن ملک کی دھرتی پر قدم نہ رکھ سکے۔ ملک کی سیاسی اورعسکری قیادت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ ایک دو سو میٹر کے فاصلے پر موجود پاکستان دشمنوں اور دہشت گردوں پر بمباری کرکے نہ ہی صرف قوم کو احساس تحفظ فراہم کیا ہے بلکہ دشمنوں کو بھی واضح پیغام دیا ہے جو وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ میرے نزدیک جتنا ہوچکا، وہ کافی ہے۔ اب اس سلسلے کو مزید بڑھانا دانشمندی نہیں۔
مجھے اچھی طرح علم ہے کہ یہ اقدام مسئلے کا حل نہیں، یہ شارٹ ٹرم کارروائی ہے۔ مجھے اس فیصلے کے مضمرات کا بھی علم ہے اور یہ بھی احساس ہے کہ دہشت گرد صرف اسی علاقے تک محدود نہیں جہاں پاکستان نے بمباری کی۔ دراصل دہشت گرد افغانستان کےان تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں۔ افغان حکومت پاکستانی اقدام پر احتجاج بھی کرے گی اور ہندوستان کی مدد سے بین الاقوامی سطح پر واویلا بھی کرے گی لیکن مشکل یہ ہے کہ جب افغان حکومت ان دہشت گرد تنظیموں کے سامنے بے بس ہے تو کیا ہم خاموش تماشائی بنے رہیں؟ ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ ان کارروائیوں کے پس پردہ افغان خفیہ ایجنسی اور ’’را‘‘کا اتحاد کام کر رہا ہے لیکن یہ ہماری ڈپلومیٹک ناکامی ہے کہ ہم بین الاقوامی سطح پر ان ہاتھوں کو پوری طرح بے نقاب نہیں کرسکے۔ حالیہ دہشت گردی کے بعد عالمی رائے عامہ پاکستان سے ہمدردی کا اظہار کررہی ہے لیکن ہم اس موقع پر بھی اپنی مظلومیت کے اسباب واضح انداز میں بیان نہیں کرسکے۔ پاکستان پرطالبان کی امداد کاالزام دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیوں اورمظلومیت کے احساس کو ابھرنے نہیں دیتا..... یہ موقع تھا کہ ہم اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ کا تاثر بدلتے لیکن جہاں وزارت ِ خارجہ کا یہ حال ہو کہ افغان سفارتخانے کے اسٹاف کو مقتدر ادارے میں بلا کر ثبوت دیئے جائیں اور کارروائی کا مطالبہ کیا جائے وہاں وزارتِ خارجہ کی کارکردگی پر آنسو بہانے کا کیا فائدہ؟
موجودہ خوفناک واقعات نے دہشت گردی کے حوالے سے نہ صرف حکومتی دعوئوں کی نفی کردی ہے بلکہ یہ راز بھی فاش کردیا ہے کہ دہشت گردوںکا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہواہے۔ دہشت گردوں کے سہولت کار، رابطے اور خفیہ اڈے ہمارے اندر موجود ہیں۔ اس لئے اگر ہمیں اس چیلنج سے پوری طرح نبردآزما ہونا ہے تو افغانستان بارڈر کی کڑی نگرانی کرنی پڑے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کرکے دہشت گردوں کے سہولت کاروں، رابطوں اور خفیہ ٹھکانوں کو ختم کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے پنجاب میں رینجرز کی خدمات کا حصول ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ رینجرز مقامی انتظامیہ، خفیہ ایجنسیوں، حکومتی مشینری اور پولیس کی مدد کے بغیر پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنا صرف پولیس کے بس کا روگ نہیں ورنہ ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کو بھی اکثر پولیس والے رشوت لینے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اکثر اوقات بیگناہوں کو رقمیں بٹورنے کے لئے پکڑ لیتے ہیں۔ پنجاب میں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، شراب و زنا کے اڈے اور دیگر جرائم خانے تاثر ہے کہ پولیس کی نگرانی میں چلتے ہیں۔ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے دہشت گردی کے واقعات کے بعد پولیس والوں کو شک کے بہانے لوگوں کی جیبیں خالی کرتے دیکھا ہے۔ ایسی پولیس سے دہشت گردوں کے اڈے ختم کرنے کی توقع خام خیالی ہے۔ یہ کام رینجرز احسن انداز سے کرسکتے ہیں۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ کو انتخابی مہم کے صدقے اربوں روپے اشتہارات پر ضائع کرنے سے فرصت ملے تو رینجرز کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر دہشت گردی کے ساتھ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے خاتمے کے لئے بھی حکمت عملی بنائیں۔ اندیشہ ہے کہ پولیس دبائو ڈال کر رینجرز کو صرف دہشت گردی تک محدود رکھوانا چاہے گی اوراس حوالے سے بھی رینجرز کو پولیس کی مخلصانہ حمایت میسر نہیں ہوگی لیکن اس صورتحال کا تدارک بہرحال خادم اعلیٰ کی ذمہ داری ہے۔ عام طور پراس طرح کے آپریشنز کے دوران دہشت گرد تنظیموں کے ایجنٹ زیرزمین چلے جاتے ہیں اور جب آپریشن ختم ہو تو اپنے ٹھکانوں پر آجاتے ہیں۔ ان عوامل پر صرف پولیس ہی کڑی نگرانی رکھ سکتی ہے لیکن تلخ سچ یہ ہے کہ پنجاب پولیس کوکرپشن کی دیمک نے چاٹ کرغیرموثر بنادیاہے۔
دہشت گردی ایک گمبھیر چیلنج ہے جسے صرف اندرونی یا داخلی کو مبنگ اور کارروائی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم وقتی خاموشی کو اپنی کامیابی سمجھ کر بیانات داغنا شروع کردیتے ہیں جبکہ یہ دہشت گردوں کی حکمت عملی ہوتی ہے۔ وہ تساہل سے فائدہ اٹھا کر شاہراہ قائداعظم لاہور اور سیہون شریف جیسے گمبھیر سانحات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے کے پائیدار حل کے لئے افغانستان کے ساتھ مراسم بہتر بناکر مشترکہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
ہماری نااہلی کہ ہم نےافغانستان کی شکایات اور مطالبات کو اہمیت نہ دی اور اسے ہندوستان کی گود میں جانے سے نہ روک سکے۔ یہ ہماری مجموعی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح افغانستان سے معاملات بہتر بنا کر دہشت گردی کے گمبھیر چیلنج اور مستقل خوف سے عہدہ برا ہوتی ہے۔ دہشت گردی بیک وقت داخلی اور خارجی مسئلہ ہے اس لئے دونوں محاذوں پر کارروائی کامیابی کی ضمانت دے سکتی ہے ورنہ.....؟؟

.