طلوع سحر ہے شام قلندر

February 23, 2017

میں اس کے خیال کی انگلی پکڑ کر دور جا نکلا کہیں سیہون کی گلیوں میں ’’قلندر پت رکھجاں‘‘ (قلندر لاج رکھنا) یہ ذوالفقار علی بھٹو کے آخری الفاظ تھے جو انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی دفاعی تقریر کے دوران کہے۔ آریا مہر شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے قلندر شہباز کے مزار کیلئے سونہری دروازہ تحفے میں دیا، اور مغل فرمانروا شاہجہاں نے اسکا روضہ تعمیر کروایا۔ لیکن دلوں پر اصل حکمرانی ان حکمرانوں کی نہیںپر سیہون اور اسکے قلندر جیسے درویشوں کی ہوتی ہے۔ اسی لئے تو عوام صوفیوں کی خانقاہوں کو بھی درباریں کہتے ہیں۔گزشتہ ہفتے اسی سیہون میں قلندر کے روضے کے اندر جاری دھمال کے دوران خود کش بمبار نے دھماکے کے ذریعے دہشتگردی کی ایک بڑی واردات میں نوے کے قریب زائرین، جن میں بچے بوڑھے، مرد، عورتیں شامل تھے ہلاک اور کئی کو زخمی کردیا۔ برصغیر یا ما قبل تقسیم تک سندھ اور ہند میں آج سب سے بڑی درویشی خانقاہوں میں سے ایک لال شہباز قلندر کے مزار پر دہشتگردی نے ہر ایک دل کو زخمی کردیا وہاں ایک عجیب عزم بھی دیا کہ خودکش بمبار نے نہ فقط خود کو اڑادیا پر اسکے ساتھ سب سے بڑی بات اس نے اس فکر کو بھی اڑا دیا جو کہ وہ انتہاپسند ذہنیت ہے جسکی راہ میں رکاوٹ قلندر لال شہباز کی درگاہیں اور وہ فقیر فقراملنگ و درویش ہیں جو لوکی پنج واری اساں ہر واری کا ورد کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ جس دن دھماکہ ہوا اس خونی رات کے اختتام پر پو پھٹتے ہی قلندر کے دربار میں نقارے پر ڈنکے کی وہ چوٹ اور گھڑیال گھنٹے پر اعلان ہوا ہے صبح والی دھمال کا جس نے نے اس سمے کو پھر ابدی کردیا کہ ’’نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں‘‘ اب تلواریں تو نہیں رہیں لیکن خودکش بمباروں کی یلغاریں ہیں جنہوں نے اب کئی برسوں سے سندھ کا رخ کیا ہوا ہے۔ کشمور سے لیکر کیٹی بندر اور کراچی تک گویا لشکر ہن چڑھائی کر آیا ہو۔ تہذیب تاراج کرتا ہوا۔ دل کے بغداد کو تاتاری لوٹتے ہی رہے (امداد حسینی)
قلندر کی درگاہ سندھ اور ملک میں ان چند ایک مقامات میں سے ہے جہاں ایک یکسانیت ہوتی ہے۔ ایک وحدت کی لے پر۔ بس تو ہی تو، اور مجھ میں تو موجود کی تسبیح رقص کی صورت۔ کیا مرد، کیا عورت، کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا امیر کیا غریب سب ایک اس بسنتی لال چولے میں رنگے ہوتے ہیں۔
جیسے سندھی ادیب اور صوفی دانشور آغا سلیم نے ایک دفعہ لکھا تھا ’’دل کا سیوھن صاف کرو قلندر خود آئے گا‘‘۔
قلندر اس عحیب مسحور کن نگری سیہون میں خود آیا۔ یہ بارہویں تیرہویں صدی عیسوی کی بات ہے۔ سندھ میں صوفی ازم پر تحقیقی کام کرنے والے فرانسیسی مورخ ڈاکٹر مشل بوئیون کے مطابق، قلندر شہباز کا جنم گیارہ سو ستتر اٹہتر عیسوی میں آج کے آذر بائیجان کے علاقے مروند یا مرند میں ہوا تھا جو شہر تبریز کے نزدیک ہے جہاں رومی کے محبوب و مرشد شمس تبریز کا جنم ہوا تھا۔ قلندر شہباز کے جنم کا ہجری سال پانچ سو تہتر ہے جب یہ بزرگ سید ابراہیم کبیرالدین کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ سید کبیر الدین کے بڑے عراق سے مشہد اور پھر مروند میں جا آباد ہوئے جو اسوقت مغربی فارس کہلاتا تھا۔ چوبیس سال کی ہی عمر میں محمد عثمان کو مذہب اور اسلامی علوم پر کافی دسترس حاصل ہوگئی تھی، انہوں نے پہلے مشرق وسطی کا رخ کیا جہاں انہوں نے جید صوفی محمد صوی کے ہاتھ بیعت کی اور ان ہی کے کہنے پر ہندوستان کا سفر اختیار کیا جہاں انکو قلندری بو علی سینا سے ملنے کے بعد ملی۔ قلندربو علی سینا نے ہی بقول ڈاکٹر مشل بوئیوین، عثمان مروندی کو مشورہ دیا کہ جیسا کہ ہندوستان میں پہلے ہی بہت سے قلندر ہیں تو وہ اپنے پیغام کو عام کرنےکیلئے ملتان کا سفر کریں۔ یہاں انکی ملاقات بہاءالدین ذکریا سے بھی ہوئی۔قلندر نےاسوقت کے بادشاہ محمد بلبلن کے بڑے بیٹے کے سامنے قلندری دھمال ڈالی تھی جس پر بادشاہ زادے نے قلندر کو ہندوستان میں ہی رہنے اوروہاں جاگير اور خانقاہ دینے کی پیش کش کی لیکن یہ قلندر تھا اور قلندر ایک جگہ پر نہیں ٹکتے بلکہ ہر وقت جہاں گشت رہتے ہیں۔ سرخ پوش۔ اس سرخ پوش نے سندھ کے سیہون کو اپنا مقام چنا ساتھیوں کے ہمراہ وہاں جھنڈے گاڑے۔ جہاں انہوں نے بقول ڈاکٹر مشل بوئیون معجزے دکھلائے، اسی لیے وہ بادشاہوں سے لیکر گداگروں اور طوائفوں تک سب کے ولی کہلائے۔ کہتے ہیں کہ یہ سرخ پوش جہاں گرو قلندر کے سیہون میں قیام کا کل عرصہ زیادہ سے زیادہ دو سال ہے جسکے بعد سیہون میں ہی انکا وصال ہوا۔ سید عثمان مروندی کا شجرہ امام جعفر صادق اور انکے صاحبزادے اسماعیل سے ملتا ہے۔ (حوالہ سوانح لال شہباز قلندر:ہسٹاریکل ڈکشنری آف دی صوفی کلچرآف سندھ ان پاکستان اینڈ انڈیا۔ مصنف :مشل بوئیون)
لیکن اس سے پہلے ان کے راستے میں بودلو بہار نامی ایک درویش تھا جو نہ جانے بہت بڑے عرصے سے سیہون کی گلیاں صاف کرتا پھرتا تھا کہ اس نے سنا تھا کہ قلندر آئے گا۔ اسی لیے قلندر کی درگاہ سے پہلے زائرین بودلو بہار کی درگاہ پر جاتے ہیں۔ جی ہاں یہی وہ گلیاں ہیں سیہون کی جن میں سائیں اختر سے لیکر سائیں مرنا تک، ہدایتکار رانا سیوہانی سے لیکر استاد منظور علی خان اور محمد یوسف اور عابدہ پروین تک یہاںتک کہ میڈم نور جہاںنے دھمالیں گائی تھیں۔
اور وہ لاکھوں قلندری دیوانے کے جنکا کوئی ذکر فکر نہیں جو ان چاروں چراغوں کی روشنی پر آتے ہیں، جس طرح وہ اس شام آئے اور پروانوں کی طرح بھسم ہوئے۔ اسی سیہون میں ایک یار کی آغوش جیسی تنگ گلی بھی تھی جہاں بابا لال داس کی مہندی نکلتی ہے۔، آج بھی نکلتی ہے، بابا لال داس قلندر کے چراغ جلانے والا۔
کئی فاتح اور حکمران، غیر حکمران آئے گئے لیکن سہون وہیں پر۔ نیچے اونچے پہاڑوں کی میخوں میں اترا ہوا۔ جیسے واقعی کسی شہباز کی آمد کا انتظار کرتا ہو، جیسے میرے دوست شاعر مسعود منور نے کہا ’’چاند دو پہاڑوں کی میخوں پر اترا ہوا۔ اس کی چکی کے روزن سے ہنستا رہا اور وہ دیر تک شیو کرتا رہا رات کے دو بجے۔‘‘ یہ انہوں نے بھٹو کیلئے کہا تھا جس نے سپریم کورٹ کے سامنے کہا تھا ’’قلندر پت رکجھاں‘‘ ایسا لگا جیسے بھٹو بھی ’’لال موری پت جھولے لالن‘‘ کہتا ہو۔ ایک کشتی پر منت کیلئے دریا کے اس پار سے سیہون پر جانے کو مراد لیے عورت سے لیکر ملک کے معزول وزیر اعظم تک سب کی امیدوں آسوں کا مرکز ’قلندر‘ ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے اسے لال شہباز قلندر کہا تو ہندوئوں نے اسے ’جھولے لال‘ کہا کہتے ہیں، یہ اس نسبت سے بھی ہے کہ قلندر شہباز کی ہندوئوں کی برگزیدہ روحانی ہستی اڈیرں لال سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور انکی گاڑھی چھنتی بھی تھی۔
یہ لال جس نے پورے سندھ کو رنگ لیا ہے۔ صدیوں زمانوں سے رنگتا آیا ہے۔ وہاں ماتم سندھ حکومت کی اتنی بڑی دہشتگردی کے شکار زخمیوں اور لاشوں کی طرف بے حسی اور بے اعتنائی پر بھی ہے۔ موجودہ سندھ حکومت کی ناکامی اور کیا ہوسکتی ہے کہ سیہون مراد علی شاہ کا آبائی حلقہ ہے لیکن ان کے ہی حلقے میں قلندر کے زائرین تڑپ تڑپ کر نہ فقط مرے بلکہ انکے جسموں کے اعضا کو گندے پانی کے تالاب میں پھینکنے کی خبریں بھی ہم نے دیکھیں اور پڑھیںاور کئی رپورٹوں کے مطابق انسانی اعضا کو آوارہ کتوں نے کھایا۔ لیکن قومی اسمبلی میں حزب مخالف کے رہنما سید خورشید شاہ نے مقامی میڈیا سے کہا کہ یہ اعضا خودکش بم دھماکے سے اڑ کر خودبخود گندے پانی کے تالاب میں جاگرے۔ پتہ نہیں سندھ کے لوگوں سے کس بات کا انتقام لیا جا رہا ہے۔ نہ کارساز کے اتنے بڑے سانحے پر ارباب رحیم گھر جاتا ہے نہ سیہون کے عظیم سانحے پر مراد علی شاہ۔
حکومت ہو کہ آپریشن عضب کے کرتا دھرتا دہشتگردی کی کمر توڑنے میں ناکام ہوگئے۔ اگر وہ خودکش بمبار خود کش جیکٹ باندھ کر افغانستان یا علاقہ غیر سے تمام چوکیاں عبور کرتے ہوئے آخرکار سیہون قلندر شہباز کے دربار میں پھٹنے میں کامیاب اور تمام ایجنسیاں اور مرکزی و صوبائی حکومتیں ناکام ہوگئیں۔ اگر وہ افغانستان سے آیا تو پھر سندھ میں سندھی قوم پرستوں اور انکے والدین و دیگر اہل خانہ کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور انہیں ہراساں کرنا کیا معنی۔ جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ سندھی قومپرست کم ازکم مذہبی انتہاپسند ہرگز نہیں۔ یہ تو انکے دشمن بھی مانیں گے۔ جو بات نہیں مانی جا سکتی وہ یہ کہ نہ سندھ کبھی پہلے سیکولر تھا اور نہ ہی اب سیکولر ہے بلکہ سندھ میں مذہبی انتہاپسندی تیزی سے بڑھی ہے۔ ایسے ماحول میں وہ خواتین و حضرات تحسین کے قابل ہیں جنہوں نے اس سانحے کے دکھ میں سیہون میں شیما کرمانی کی سرکردگی میں تاریخی دھمال ڈالی۔
اٹھو رندو پیو جام قلندر
طلوع سحر ہے شام قلندر


.