شاعر اور محبوب!

February 24, 2017

میرا ایک نقاد دوست اردو شاعری کی عجیب و غریب تاویلات کرتا رہتا ہے اور اس دوران کبھی جھنجھلا جاتا ہے اور کبھی خوش ہوتا ہے۔ ایک روز میں اس کی صحبت میں بیٹھا تھا اور محسوس کررہا تھا کہ اس پر سخت قسم کی جھنجھلاہٹ طاری ہے۔ اس نے مجھے مخاطب کیا اور پوچھا ’’اگر تم کسی سے محبت کرو اور وہ جواب میں تم سے محبت نہ کرے تو تم کیا کروں گے؟‘‘
’’میں نے کہا ’’کچھ بھی نہیں، کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ خوبصورت لوگ اگر اپنے سب عاشقوں کی محبت کا جواب ان کی منشا کے مطابق دینے لگ جائیں تو یہی عاشق حضرات اسے لوز کریکٹر مشہور کردیں گے!‘‘
یہ سن کر میرا نقاد دوست بہت خوش ہوا اور بولا ’’تم ایسے حقیقت پسند شخص سے مجھے اسی جواب کی توقع تھی۔ اب بتائو جب غالب کہتا ہے؎
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
’’تو کیا اس کے شکوے کا کوئی جواز ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’نہیں‘‘
اس پر وہ ایک بار پھر خوش ہوا اور بولا ’’یہی حقیقت پسندی ہے۔ دیکھیں نا آپ اگر مشتاق ہیںتو ہوا کریں یہ آپ کا اپنا مسئلہ ہے۔ آپ محبوب سے یہ توقع کیوں کرتے ہیں کہ وہ بھی آپ کا مشتاق ہو بلکہ آپ کے اس اشتیاق کے جواب میں وہ اگر آپ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تو یہ بھی اس کا حق ہے۔ یہ تو نرگسیت کی انتہا ہے کہ انسان اس بات پر حیران ہو کہ اس نے کسی سے عشق کا اظہار کیا اور آگے سے بیزاری کا اظہار کیا گیا۔ ویسے اس بیزاری کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی۔ آپ کیوں ایسی فرمائش یا حرکت کرتے ہیں جس سے محبوب کے دل میں محبت کی بجائے بیزاری پیدا ہو اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے آپ حیران ہوتے ہیں اور کہتے ہیں یا الٰہی! یہ ماجرا کیا ہے یہ تو خالص مردانہ شائونزم ہے!‘‘
اس تقریر کے جواب میں میری خاموشی کو اس نے نیم رضا مندی کے کھاتے میں ڈالا اور پھر پوچھا ’’اگرمحبوب کے حسن کے تیر سے زخمی کوئی عاشق اپنے اس محبوب سے یہ توقع رکھے کہ وہ اسے دلاسا دینے کے لئے آدھی رات کو اس کے پاس چلا آئے تو کیا ہمارے معاشرے میں یہ ممکن ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’نہیں‘‘
نقاد دوست نے ایک سوال اور کیا ’’اور وہ محبوب صبح ہوتے ہی اپنے عاشق کو دیدار کرا دے تو کیا یہ اس کی مہربانی نہیں؟‘‘
میں نے کہا ’’بالکل ہے‘‘
وہ بولا ’’مگرایسا نہیں سمجھا جاتا بلکہ الٹا یہ کہا جاتا ہے کہ اب آنے کا کیا فائدہ رات تو تڑپتے گزر گئی ہے توکیا یہ احسان فراموشی نہیں؟‘‘
میںنے بے بسی کی حالت میں جواب دیا ’’ہے‘‘
نقاد دوست بوالا ’’توپھر جب اقبال کہتا ہے؎
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
اس کے بارے میں تم کیا کہو گے؟‘‘
میں نے کیا کہنا تھا میں اس پر بھی خاموش ہوگیا۔اس پرمیرے دوست نے شہ پکڑی اور بولا ’’ہماری اردوکی غیر حقیقت پسندانہ شاعری کی صرف یہ دو مثالیں نہیں ہے بلکہ ساری شاعری اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔‘‘
میں نے ’’ھل من مزید‘‘ کی فرمائش کی تو اس نے کہا ’’تم نے گویا صاحب کا وہ شعر سنا ہے؟‘‘
میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’کون سےگویا صاحب‘‘
بولے ’’وہی جن کا شعر ہے؎
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
میں نے کہا ’’حضرت! یہ شعر کسی گویا صاحب کا نہیں، مومن خان مومن کا ہے‘‘۔
بولے ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے لیکن ایک مومن کو اس طرح کا شعر نہیں کہنا چاہئے تھا۔‘‘
میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘
فرمایا ’’اس میں شاعر نے کھلم کھلا اپنے ہرجائی پن کا اظہار کیا ہے۔ موصوف اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جب کوئی دوسرا میسر نہ آئے اس وقت میں تمہیں اپنے پاس بلا لیتا ہوں۔ یہ صرف ہرجائی پن نہیں بلکہ محبوب کی ڈائریکٹ انسلٹ بھی ہے۔ بھئی اگرایسی کوئی بات ہے بھی تو اسے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں نے اس بار بھی خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا، وہ ہر بار میری خاموشی کو میری نیم رضا مندی سمجھتا رہا۔ حالانکہ فارسی کا ایک محاورہ ’’جواب جاہلاں باشد خموشی‘‘ بھی ہے۔ میرے نقاد دوست نے بے شمار دوسرے شعروں پر اظہار ناپسندیدگی کرنے اور ان کی درگت بنانے کے بعد آخر میںایک شعر کو سند فضیلت عطاکی اور فرمایا احمد فراز واحد شاعر ہے جو محبوب سے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد مطلب کی بات زبان پر لانے کی بجائے اس سے سیدھی اور کھری بات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انسان ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
ایک کھرے انسان کو یہ بات پہلی ملاقات ہی میں محبوب سے کہہ دینا چاہئے تاکہ طرفین کا وقت ضائع نہ ہو‘‘۔
میں یہ سن کر خوش ہوا کہ چلو میرے نقاد دوست کو پوری اردو شاعری میں سے کوئی شعر تو پسند آیا مگر میں نے دیکھا کہ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ اس پر میں گھبرا گیا اور پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘
بولا ’’اس شعر کی وجہ سے میں شدید ذہنی صدمے سے بھی گزرا ہوں مگر اس میں شعر یا شاعر کا بہرحال کوئی قصور نہیں!‘‘
میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے کہا ’’میں جس کی محبت میں مبتلا تھا وہ ہمیشہ حجاب میں مجھ سے ملتا تھا۔ ایک دن میں نے حوصلہ کر کے اس کے سامنے ’’دونوں انسان ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں‘‘ والا شعر پڑھ دیا اور اس سے درخواست کی کہ وہ چہرے سے نقاب ہٹائے‘‘۔
میں نے تجسس سے پوچھا ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
نقاد دوست نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا ’’ہونا کیا تھا اس نے میرے جذبات کا پاس کرتے ہوئے نقاب ہٹا دیا۔ بس وہ دن اور آج کا دن، مجھے اس کا فون آتا ہے اور میں اٹینڈ نہیں کرتا۔ کاش کبھی احمد فراز نے بھی کسی ایسے ہی ڈرائونے محبوب سے اسی طرح کی فرمائش کی ہوتی!


.