ردالفساد ،جسٹن ٹروڈو

February 24, 2017

تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے دہشت گردوں کے خلاف دو سال سے زائد عرصہ پہلے ملٹری آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جس نے بہترین نتائج دکھائے اور بڑی حد تک دہشت گردوں کو یا تو مار دیا گیا یا انہیں گرفتار لیا گیا۔ ان کے نیٹ ورک کو بھی توڑ دیا گیا۔ تاہم گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے یہ ثابت کیا کہ اس برائی کے خلاف ابھی کافی کام کرنا باقی ہے۔ ضرب عضب کی وجہ سے بہت سے دہشت گرد افغانستان بھی فرار ہوگئے تھے اور وہ وہیں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ افغان حکومت نہ صرف بے بس ہے بلکہ وہ چاہتی ہی نہیں کہ ان دہشت گردوں کو پکڑا جائے، مار دیا جائے یا پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ اس ساری سازش میں بھارت مکمل طور پر ملوث ہے کیونکہ افغانستان اس کی گود میں بیٹھا ہوا ہے اور وہی کچھ کر رہا ہے جو اسے بھارت کہتا ہے۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم نوازشریف کی مشاورت سے آپریشن ردالفساد شروع کیا ہے جس میں باقی ماندہ دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کو فنڈنگ کرنے والوں کا صفایا کیا جائے گا۔ یقیناً یہ آپریشن بلاامتیاز ہوگا اور پورے پاکستان میں اس کے اثرات واضح طور پر نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس کے شروع ہونے سے قبل ہی پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اب یہ پالیسی جاری رہے گی۔ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری تمام آپریشنز اب ردالفساد کے تحت ہی ہوں گے جس میں بری، بحری اور فضائی افواج اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے شامل ہوں گے۔ پنجاب میں شروع ہونے والے رینجرز کا آپریشن بھی ردالفساد کا حصہ ہوگا۔ جنرل باجوہ نے دہشت گردی کے خلاف اپنے مصمم ارادے کا اظہار کر دیا ہے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اعلیٰ سول اور ملٹری قیادتیں مکمل طور پر ایک صفحے پر موجود ہیں۔ ایسا اتفاق رائے اس طرح کے آپریشن کی کامیابی کیلئے بہت ضروری ہے۔
پچھلے ہفتے ہونے والے دہشت گردی نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا جس کے بعد ہی ردالفساد کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ پنجاب میں رینجرز کے ذریعے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں 60 دن کیلئے رینجرز کو پنجاب کے 21 اضلاع میں آپریشن کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کیلئے کوئی روک رکاوٹ نہیں ہوگی۔ دراصل وزیراعظم نے صوبائی حکومت سے کہا تھا کہ وہ ایسا فیصلہ بلاتاخیر کرے۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں رینجرز کے ذریعے آپریشن کے متعلق تمام امور طے کئے گئے کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)دہشت گردی کے خلاف اپنی علیحدہ کارروائیاں جاری رکھے گی بلکہ یہ رینجرز کے ساتھ بھی کوآرڈنیشن کرے گی۔ اسی طرح کا رول پولیس بھی ادا کرتی رہے گی۔ رد الفساد اور پنجاب میں رینجرز کی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پارلیمانی جماعتیں بھی اس بات کا احساس کریں کہ وہ ملٹری کورٹس کو اختیارات دینے کے بارے میں فضول بحث مباحثے میں نہ پڑیں۔ انہیں تو چاہئے تھا کہ جونہی یہ تجویز آئی کہ ملٹری کورٹس کے اختیارات جو کہ اس سال جنوری میں ختم ہوگئے تھے کو مزید توسیع دی جائے انہیں فوراً قبول کر لینی چاہئے تھی کیونکہ حالیہ دہشت گردی نے بہت خطرناک صورتحال پیدا کر دی تھی اور یہ ضروری تھا کہ دہشت گردوں کو فوری سخت سزائیں دی جائیں۔ملٹری کورٹس کے اختیارات کی بحالی سے صرف اور صرف ملک کو فائدہ ہوگا نہ کہ حکمراں جماعت کو۔ ایسی تمام سیاسی جماعتیں جو خواہ مخواہ ان اختیارات کی توسیع کی مخالفت کر رہی ہیں کو ملک کا سوچنا چاہئے نہ کہ اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکہ میں طوفان بپا کیا ہوا ہے خاص طور پر تارکین وطن کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک کروڑ سے زائد ’’غیر قانونی‘‘ افراد جو امریکہ میں ہیں بڑی پریشانی اور بے یقینی کی صورتحال سے دو چار ہیں کیونکہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن اس بات پر تلی ہوئی ہے کہ ان کو امریکہ سے ہر صورت نکالنا ہے۔ یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے جو کہ اتنی آسانی سے حل نہیں ہوسکتا۔ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ والدین غیر قانونی طور پر امریکہ میں کافی سال سے رہ رہے ہیں ان کے اس لمبے عرصے کے دوران ان کے اسٹیٹس میں امریکی قوانین کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں آئی مگر ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچے پیدائشی طور پر امریکی شہری ہیں۔ اگر ان والدین کو یہ کہہ کر امریکہ سے نکالا جاتا ہے کہ وہ تو غیر قانونی طور پر یہاں رہ رہے ہیں تو ان بچوں کا کیا بنے گا جو 18سال سے کم عمر ہیں۔ ٹرمپ کے اقدامات کے خلاف امریکہ اور دنیا میں شوروغوغا مچا ہوا ہے مگر امریکی صدر ماننے کو تیار نہیں، انہوں نے رٹ لگا رکھی ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئے گئے تمام وعدے پورے کر کے دکھائیں گے۔ تاہم کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پہلے دن سے ہی ٹرمپ کی بہت سی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ اب انہوں نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ امریکہ سے بے دخل کئے جانے والے تمام تارکین وطن کو کینیڈا میں قبول کیا جائے گا چاہے اس کیلئے انہیں کسی بھی مخالفت کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے، امریکہ سے غیر قانونی طور پر کینیڈا میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو روکا نہیں جائے گا، کینیڈا کھلی سرحدی پالیسی پر یقین رکھتا ہے کیونکہ ہمیں اپنے امیگریشن سسٹم پر اعتماد ہے اور کینیڈین حکومت ان لوگوں کی مدد کرتی رہے گی جو تحفظ کی تلاش میں یہاں آتے ہیں لیکن ہم ایسے اقدامات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ ہمارے اپنے عوام محفوظ رہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی نے بھی کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران دئیے گئے زہریلے بیانات نے دنیا کو تاریک کر دیا ہے، ان کے روئیے کی وجہ سے عالمی سیاست میں تقسیم کے رجحانات میں اضافہ ہوا ہے اور اگر یہی ماحول جاری رہا تھا دنیا میں نسل، صنف، قومیت اور مذہب کی وجہ سے حملوں میں اضافہ ہو گا۔ ٹرمپ کی وجہ سے ہی مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور دوسرے ممالک میں نفرت بڑھی ہے۔ اس کی ایک اورمثال اس وقت سامنے آئی جب اسلامی تعلیمات سے متاثر امریکی اداکارہ لنزے لوہن ہیڈ اسکارف پہننے پر لندن میں مشکوک ٹھہریں۔ ہیتھرو ایئرپورٹ پر امتیازی سلوک کرتے ہوئے اداکارہ کو روک لیا گیا۔ ایک مارننگ شو میں تیس سالہ اداکارہ نے بتایا کہ ایئرپورٹ پر کسٹم حکام نے انہیں ہیڈ اسکارف پہنے دیکھ کر روکا اور پاسپورٹ چیک کرنے کے بعد کسٹم آفیسر نے اسکارف اتارنے پر اصرار کیا۔ گلوکارہ کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ اسکارف پہننے والی خواتین کے ساتھ کیسا برا سلوک کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیاں اپنی جگہ مگر امریکہ میں ہی بہت سے ایسے عناصر بھی ہیں جو مختلف مذاہب میں ہم آہنگی چاہتے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔امریکی ریاست میسوری میں دو مسلمانوں نے اس کی ایک نادر مثال قائم کی۔اس ریاست کے شہر سینٹ لوئس میں یہودیوں کے تاریخی قبرستان میں نامعلوم افراد نے تقریباً 100 قبروں کےکتبے توڑ دئیے یا انہیں نقصان پہنچایا تھا جس پر دو مسلمانوں فلسطینی نژاد امریکی خاتون لینڈا سارسور اور طارق المزید قبروں کے کتبوں کی بحالی کیلئے فنڈنگ شروع کی اور دو گھنٹے کے اندر ہی بیس ہزار ڈالر سے زائد جمع کر لئے۔


.