مادری زبانیں اور پشتو

February 26, 2017

ایشیائی زبانوں میں پشتو پر جتنا عظیم تحقیقی کام مستشرقین نے کیا ہے اس سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ بالخصوص انگریز نے اپنے سب سے بڑے اور شاید واحد حریف کو سمجھنے کیلئے کسطرح ان کی زبان کو سمجھنے کیلئے سعی بے مثال کی۔وہاں ایسے انگریز مستشرقین بھی ہیں جنہوںنے خالص علمی و ادبی لگن سے پشتو زبان و ادب میں دلچسپی لی اور قابل قدر خدمات انجام دیں، ایسے اصحاب کے احسانات سے پشتو زبان و ادب کبھی عہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ہم مادری زبانوں کے حوالے سےاس کالم میں ایسے ہی کارناموں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اوراس سلسلے میں مرحوم و مغفور فارغ بخاری کے ایک گراں قدر مقالے سے استفادہ کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈورن (Dorren )نسلاً انگریز تھے ،جرمنی میںپیدا ہوئے، وہی تعلیم پائی،انہیں افغانستان اور کاکیشیا کی زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔ درسی کتب کے علاوہ 1826میںپختونوں کی تاریخ ، 1845میں پشتو لغت اور 1847میںپشتو زبان پر ایک کتاب شائع کی۔ ایچ جی راورٹی مشہور انگریز مستشرق اور پشتو زبان کے عالم اور نامور مصنف تھے۔ انہوںنے خصوصیت سے دو استادوں سے استفادہ کیا۔ ایک ہشت نگر اور دوسرے قندھار کے تھے، یہی وجہ ہے کہ پشتو زبان کے دونوںلہجوں (Dialects) کے فرق کوراورٹی بخوبی سمجھتے تھے ۔راورٹی کی گرامر کا پہلا ایڈیشن کلکتہ میںچھپا تھا جب اس کا دوسرا ایڈیشن لندن میںآیاتو انگلستان کے اخبارات و رسائل نے اسے شاہکار قرار دیا۔ راورٹی کی دوسری مشہور پشتو تصنیف ’گلشن روہ‘ ہے جو پشتو کے نامور شعرا کے منتخب کلام پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے پروفیسر ڈرون نے بھی پشتو منظومات اور نثر کا انتخاب شائع کیا تھا۔ راورٹی نے انگریزی میں ترجمہ کرکے پشتون شعرا کو یورپ میں متعارف کرایا۔ علامہ اقبال بھی راورٹی کے اس ترجمہ کی وساطت ہی سے پہلی دفعہ پشتون شعرا خصوصاً خوش حال خان خٹک کے کلام سے متعارف ہوئے۔حضرت اقبال کی بعض اصطلاحات شاہین، شہباز اور خود ی وغیرہ کا ماخذ خوش حال خان کا کلام ہی بتایا جاتا ہے۔راورٹی نے مینول آف پشتو کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ،انہوں نےپادری جیمز کی مشہور کتابAesop Fables (ایسوپ کے قصے )کا پشتو ترجمہ شائع کیا۔ یہ کتاب پشتو نثر کی غالباً پہلی مطبوعہ کتاب ہے جو 1871میں لندن میںشائع ہوئی ۔ پروفیسر ڈاکٹر یارمحمدمغموم خٹک کی ’کلیات خوشحا ل بابا ‘کے مطابق میجر راورٹی نے 1860میںخوشحال بابا کی شارٹ ہینڈZanjiri(زنزیری)لندن سے شائع کی۔اس کتاب کے صفحہ 28 پر راورٹی کا کہنا ہے کہ اس مختصر نویسی((Shorthandکو صرف خوشحال خان اور اُن کے اہلِ خاندان ہی سمجھتے تھے۔
ڈاکٹر ہنری والٹر جب سپرنٹنڈنٹ جیل پشاور تھے تو انہوں نے خوش حال خان خٹک کا پہلا دیوان 1870میں شائع کیا۔
سرگریرسن کو ’ہندوستانی لسانیات کا جائزہ ‘ پر آرڈر آف میرٹ کا اعزاز ملا یہ کتاب 19جلدوں میں1827میںشائع ہوئی۔ اس کتاب میںپشتو زبان اور اس کے مختلف لہجوں پر بھرپور بحث کی گئی ہے ۔مالیون نے پشتو زبان کے کچھ عوامی قصے کلکتہ سے شائع کیے۔ٹی سی پلوڈن نے انگریز افسروں کے پشتو نصاب کے لئے ’گنج پشتو‘ لکھی جس کا 1875میںانگریزی میں ترجمہ شائع ہوا پھر 1903میں ایک اور انگریز بی ای ایم گرڈن نے گنج پشتو کا ترجمہ چترالی زبان میں کلکتہ سے شائع کیا۔
جیمز ڈار مسٹیٹرمشہور مصنف اور محقق تھے 1892-93میںژنداوستا کا ترجمہ کیا۔آپ 1885میںکالج آف فرانس میں ایرانی اور پشتو زبان و ادب کے پروفیسر مقر تھے۔پشتو عوامی گیتوںکا مجموعہ ’’پختونخوا ہارو بہار‘‘ کے نام سے 1888 میںپیرس سے شائع کیا۔اپنی اس کتاب میںڈار مسٹیٹر نے نہ صرف پشتو زبان کی اصل کے متعلق محققانہ بحث کی ہے بلکہ پشتو کے ایسے چار بیتے بھی محفوظ کردئیے ہیںجو اس وقت کے سیاسی حالات اور پختونوں کے جذبہ حریت کی عکاسی کرتے ہیں، علاوہ ازیں اس کتاب کی وساطت سے بعض ایسےپختون شعرا کے نام بھی ہم تک پہنچے ہیں جو بصورت دیگر سینکڑوں دوسرے عوامی شعرا کی طرح تاریکی ہی میں کھوئے رہتے۔سراولف کیرو قیام پاکستان سے پہلے صوبہ سرحد کے گورنر رہ چکے ہیں انگلستان واپس جاکر انہوںنے’ دی پٹھان‘ کے نام سے ایک تاریخی کتاب لکھی جس کا اردو میں ترجمہ پشتو اکیڈمی پشاور نے شائع کیا ہے۔گلبرٹ سن (Gilburtson) نے پشتو زبان پر اپنی پہلی تصنیف بنارس اور دوسری 1929میں ہرٹ فورڈ سے شائع کی۔ اسی سال ان کی ایک اور کتاب پشتو محاورہ لغت پر (The English Pushtu Colloquial Dictionary) لکھی جو لندن سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب خوش حال خان خٹک کی نظموں پر مشتمل ہے۔ڈاکٹر میکنزی لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے تعلق رکھتے تھے انہوںنے خوش حال خان خٹک کی کچھ نظموں کا انگریز ی میںترجمہ کیا جو کتابی صورت میںشائع ہوا۔گرائیگر نے ایک رسالہ لکھا جس میںپشتو الفاظ کا مقابلہ اوستا اور سنسکرت کے الفاظ سے کیا ہے۔ڈاکٹرمارگنسٹرن ایک عرصے تک افغانستان میںرہے، ان کی پشتو زبان اور پشتون قوم کے متعلق کتابی شکل میں(Report on a Linguistic Mission of North West India کے نام سے1932 میںاوسلو یونیورسٹی ناروے کی طرف سے شائع کی گئی۔ انہوںنے ایک کتاب پشتو اشتقاقات (Etymology) پر اور ایک کتاب خوشحال خان خٹک کی شاعری پر بھی لکھی۔ڈاکٹر ٹرمپ نے 1873میںپشتو گرامر لکھی جو لندن میں دی آنا امپریل اکیڈمی آف سائنس کی مدد سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر ٹرمپ نے اس کا دیباچہ ٹیو بنگن جرمنی میںلکھا ۔ٹیوبنگن کے کتب خانہ میں پشتو کی سینکڑوں قدیم کتب موجود ہیں ان قلمی نسخوں میںبایزید انصاری(پیر روخان با با) کی مشہور کتاب ’’خیر البیان‘‘ بھی ہے جو دنیا بھر میں اس کتاب کا واحد نسخہ ہے۔پشتو اکیڈمی پشاور کے ڈائریکٹر مولانا عبدالقادر مرحوم نے اس کتاب کی فوٹواسٹیٹ حاصل کی اور اِسے پشاور اکیڈمی سے شائع کیا ۔
پادری ہیوز پشتو زبان کے مشہور عالم تھے، ان کی خدمات پشتو زبان و ادب کے سلسلے میںہمیشہ یاد گار رہیں گی۔ آپکی پشتو نظم و نثر کے منتخب شہ پاروں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ’’کلید افغانی‘‘ کے نام سے لاہور میںطبع ہوئی۔
اس ادنیٰ طالب علم کے سامنے ایسے مستشرقین کی مزید فہرست موجود ہے جنہوں نےپشتو لغت ،ادب و تاریخ کے حوالے سے لاثانی خدمات انجام دی
ہیں،تاہم ایک کالم میں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ پھر کہنا یہ بھی ہے کہ پادری ہیوز ،میجر راورٹی اور دوسرے مستشرقین نے پشتو زبان وادب کے نوادرات جمع کرکے اپنے ملک کے کتب خانوںکی زینت بنائے۔ اپنے بزرگوں کے ان شہ پاروں کو لندن و یورپ کے کتب خانوں میںدیکھ کر ہر علم دوست پختون کے دل کو دھچکا لگتا ہوگامگر ہم علم و ادب کے ان قدر دانوں کے شکر گزار بھی ہیں جنہوںنے ان نوادرات کو محفوظ کرلیا، ورنہ یہاںتو اپنی قدردانی کا یہ عالم ہے کہ اس قسم کی پرانی کتابیں یا تودریا برد کردی جاتی تھیں یا پھر کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتی ہیں۔



.