بدعنوانی عروج پر

March 08, 2017

پاکستانی معاشرے میں یہ جملہ ہر خاص و عام کی زبان سے اکثر سننے میں آتا ہے کہ خدا کسی کو تھانے کا منہ نہ دکھائے۔ تھانوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہاں ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا دیا جاتا ہے اور بغیر رشوت کے کوئی کام نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی تاثر ہماری ماتحت عدلیہ، محکمہ مال اور پانی و بجلی جیسے خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے بارے میں بھی ہے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے 2016کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 75فیصد افراد پولیس کو 68فیصد عدالتوں کو، 61فیصد پانی صفائی اور بجلی کے محکموں، 38فیصد شناختی دستاویزات، ووٹرز کارڈ، حکومت کے پرمٹ بنانے والے اداروں، 11فیصد سرکاری اسپتالوں اور 9فیصد افراد سرکاری اسکولوں کو رشوت دیتے ہیں حتیٰ کہ 44فیصد افراد کے خیال میں وزیراعظم کے دفتر کا عملہ بھی کرپٹ ہے۔ رشوت دینے والوں میں 64فیصد غریب اور 26فیصد امیر افراد شامل ہیں۔ یہ وہ بین الاقوامی آئینہ ہے جس میں ہم اپنے معاشرے کی بڑی واضح جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پولیس کی اصلاحات کے لئے طرح طرح کی قانون سازی کی گئی ہے اور انواع و اقسام کے تربیتی پروگرام بھی اختیار کئے گئے ہیں مگر پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ جب ایک مصیبت زدہ تھانے پہنچتا ہے تو اس کی دلجوئی اور ہمدردی کرنے کی بجائے اسے طنزیہ سوالوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ اس بات کو عمومی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پولیس کے محکمے میں عملاً بہت اصلاحات کی گئی ہیں جنہیں بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ماتحت عدلیہ میں بھی صورتحال بہت مخدوش ہے اور قدم قدم پر رشوت دیئے بغیر مظلوم کی دادرسی بہت دشوار ہوتی ہے۔ رشوت اور کرپشن کا چلن پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر جگہ موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران ملک سے جہالت دور کریں اور سارے سرکاری محکموں کی اوور ہالنگ کریں تبھی ہم ایک روشن خیال جدید اسلامی معاشرہ کہلانے کے مستحق ہوں گے۔

.