دیکھیں وزیر اعظم کیا کرتے ہیں!!

March 13, 2017

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی صاحب نے حال ہی میں جو فیصلہ دیا، اُس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اللہ تعالیٰ نے جسٹس صدیقی سے یہ بہترین کام لیا جو نہ صرف کسی بھی مسلمان کے لیے فخراور اجر عظیم کا باعث ہو سکتاہے بلکہ اس فیصلہ پر عمل درآمد سے انشاء اللہ معاشرہ میں شر اور فتنہ و فساد پھیلانے کی خواہش رکھنے والوں کو ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کام میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) تا کہ ایک طرف مسلمانوں کو انتہا کی دل آزاری اور رنج و غم سے بچایا جائے تو دوسری طرف معاشرہ میں اُن عناصر کی بیخ کنی کی جائے جو ہمارے درمیان نفرت، فساد، انتشار اور فتنہ کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ اگر ایک طرف جج صاحب نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ اور دوسری مقدس ہستیوں کے خلاف سوشل میڈیا اورا نٹرنیٹ پر پھیلائے جانے والے گستاخانہ مواد کو روکنے اور اس گھنائونے جرم میں ملوث افراد کو قرارواقعی سزا دیے جانے کے احکامات دیے تو دوسری طرف ان مقدس ہستیوں کی حرمت کے دفاع کے لیے پاکستان کی سینٹ نے بھی یک زبان ہو کر ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گستاخانہ مواد کو روکنے اور اس کو پھیلانے والوں کو نشان عبرت بنانے کے لیے فوری کارروائی کی جائے۔ اس قرارداد کی سینٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے مکمل حمایت کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کے لیے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے متعلقہ محکموں کے افسران کے ساتھ میٹنگ کی اور فوری طور پر تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے کی ہدایات جاری کر دیں۔ اس موقع پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ گستاخانہ مواد کو روکنے کے لیے اگر سوشل میڈیا کو بند بھی کرنا پڑا تو ایسا بھی کیا جائے گا۔ اسی میٹنگ کے نتیجے میں پی ٹی اے اور ایف آئی اے نے اخبارات میں اشتہارات شائع کیے جس میں عوام اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں سے درخواست کی گئی کہ وہ گستاخانہ مواد سے متعلق شکایات ان محکموں کو ارسال کریں تاکہ ایک طرف پی ٹی اے ایسے مواد کو سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر سے ہٹائے تو دوسری طرف ایف آئی اے اُن اسلام دشمن شرپسندوں کے خلاف کارروائی شروع کرے جو ایسے مواد کو انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے کی سازش میں ملوث ہیں۔ ایف آئی اے کی طرف سے اخبارات کو دیے جانے والے اشتہار میں کچھ بڑی کمی اور خامیاں تھیں جسے دور کیا جانا ضروری ہے تاکہ گستاخانہ مواد کے متعلق معلومات فراہم کرنے والوں کو مکمل سہولت میسر ہو۔ وزیر داخلہ سے گزارش ہے کہ ان اشتہارات میں مزید بہتری لا کر انہیں اخبارات کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز پر بھی عوام کی آگاہی کے لیے چلایا جائے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کوئی دو ہفتہ قبل وزیر اعظم ہاوس میں ہونے والی ایک میٹنگ کے بعد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر گستاخانہ اور فحش مواد کی موجودگی کے بارے میں وزیر اعظم نواز شریف کو خصوصاً آگاہ کیا گیا جس پر انہوں نے اس معاملہ میں ایک اجلاس بلانے کا عندیہ دیا۔ اچھا ہوا کہ اسی دوران جسٹس صدیقی صاحب کا حکم سامنے آ چکا اور انہوں نے بھی یہ سارا معاملہ وزیر اعظم کے سامنے رکھنے کا حکم دیا تا کہ وہ بھی اس معاملہ کی سنگینی کا اندزاہ لگاتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اگرچہ ابھی اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی لیکن اشارے مل رہے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب اس معاملہ پر اسی ہفتہ متعلقہ محکموں کے ساتھ میٹنگ کر کے کوئی حکمت عملی بنائیں گے۔ ویسے تو میں اس بات کا گواہ ہوں کہ گزشتہ کئی سالوں سے اس معاملہ پر چند افراد متعلقہ حکومتی ذمہ داران سے گاہے بگاہے اس مسئلہ کے حل کے لیے بات کر تے رہے لیکن وہ خاطر خواہ کامیابی نہ ملی جس کی اب توقع ہے۔ ماضی میں اس معاملہ پر سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے کو درخواستیں دی گئیں اور کسی حد تک ایکشن بھی ہوا لیکن کام رکا نہیں۔ گزشتہ پی پی پی حکومت کے دور میں یہ معاملہ اٹھایا گیا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں سال 2012 میںایک پالیسی ڈائریکٹوزبھی جاری کی گئی لیکن اُس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ گیلانی صاحب کے بعد پی پی پی کے دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا لیکن پھر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس معاملہ کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں بھی اُٹھایا گیا۔ مرحوم قاضی حسین احمد صاحب اور جناب جسٹس وجہہ الدین نے الگ الگ چیف جسٹس چوہدری کو خطوط لکھے اور سو موٹو ایکشن لینے کی درخواست کی۔ اُسی دور میں پی ٹی اے کو احکامات دیے گئے کہ گستاخانہ اور فحش مواد کو انٹرنٹ اور سوشل میڈیا پر بلاک کیا جائے۔ اس پر کوئی 14 ہزار کے قریب گستاخانہ اور چار لاکھ سے زیادہ فحش سائٹس کو بند کیا گیا لیکن ایک مکمل حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ پر مکمل قابو نہ پایا جا سکا۔ اس معاملہ میں حکومت کی طرف سے ایسے گستاخانہ مواد کی تشہیر کرنے والوں کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی نہ کی گئی۔ ایسے جرائم میں سزا کا بہت اثر پڑتا ہے لیکن اس سلسلے میں حکومت اور ریاست اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ گزشتہ سال حکومت نے سائبر کرائم کا قانون بنایا لیکن بار بار یاد دہانی کے باوجود اس قانون میں گستاخانہ اور فحش مواد کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ اب اگر حکومت اس معاملہ کو حل کرنا چاہتی ہے تو اُسے اس بات کو یقینی بنانا ہو گا اگر ایک طرف پی ٹی اے مستعدی کے ساتھ اپنا کام کرے تو دوسرے طرف ایف آئی اے کو گستاخانہ مواد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے والوں کو پکڑ کر نشان عبرت بنانا ہو گا۔ لیکن اس سارے معاملہ میں ایک احتیاط انتہائی ضروری ہے وہ یہ کہ کسی معصوم کو ایسے معاملہ میں کسی کی غلط اطلاع یا دشمنی کی وجہ سے ٹارگٹ نہ کیا جائے۔ بلکہ جو لوگ ایسے نازک معاملہ میں جھوٹ کی بنیاد پر دوسروں پرالزام تراشی کریںیا انہیں پھنسانے کی سازش کریں اور اس کے لیے اسلام کا نام استعمال کریں ان کی بھی سخت پکڑ کی جائے۔ ابھی چند دن پہلے ہی ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی خاتون رپورٹر جس نے عمران خان صاحب کی ’’پھٹیچر‘‘ والی خبر بریک کی، پر سوشل میڈیا میں اسلام مخالفت کے سنگین الزامات لگادیے گئے۔ اب خاتون رپورٹر بچاری کس کس کو وضاحتیں دے کہ جو الزامات اُس پر لگائے گئے وہ سب جھوٹے تھے۔ گستاخی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ایسے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی پکڑا جانا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے گستاخانہ مواد کو رکوانے کے لیے دوسرے اسلامی ممالک کے تعاون سے او آئی سی اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اس معاملہ کو اٹھایا جائے۔ مغرب کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے گستاخی کا معاملہ ناقابل برداشت ہے۔ مغربی دنیا کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ آزادی رائے کے نام پر چند لوگ اسلام مخالف اور گستاخانہ مواد کی تشہیر کرتے ہیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور جس کے نتیجہ میں مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان نفرتیں بڑھتی ہیں۔

.