یوم ِپاکستان اور ہماری تنہائی؟

March 23, 2017

آج 23مارچ کا تاریخی دن ہے۔ ایک ایسا دن جب تین روز کے مسلسل اجلاس کے بعد لاہور کے منٹو پارک میں ایک قرار داد منظور کی گئی۔ مسلم لیگ 1940میں پیش کی گئی قرارداد کا مطالبہ سات سال بعدمنوانے میں کامیاب ہوگئی اور یوں پاکستان دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔ آج کے دن کو یوم تجدید کے نام سے بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ بڑھ گئی کیونکہ پاکستان کا پہلاآئین بھی 23مارچ1956کو منظور کیا گیا تھا۔ آج کے دن ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ 70سالوں کے دوران ہم نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہے؟ کیا گزشتہ 70سالوں کے دوران کبھی وطن عزیز کی خارجہ پالیسی آزاد ہوسکی ہے؟ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہیں کسی ایک ادارے کی محتاج تو نہیں ہے؟ منتخب وزیراعظم خارجہ امور کے فیصلوں میں خودمختار کیوں نہیں ہوتے۔
آزادخارجہ پالیسی مضبوط ممالک کی ضمانت ہوتی ہے۔ مگر ہمیں کبھی بھی آزاد خارجہ پالیسی میسر نہیں آئی۔ یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کبھی بھی کسی وزیراعظم کو مضبوط خارجہ پالیسی نہیں بنانے دی گئی۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خودمختار خارجہ پالیسی بنانے کی کوشش کی مگر ان کا انجام سب کے سامنے ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے دوسرے دوراقتدار میں خارجہ پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی مگر 12اکتوبر 1999کے دن کا سامنا کرنا پڑا۔ آصف علی زرداری نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے جارحانہ فیصلے لینے کی ٹھانی مگر میموگیٹ و دیگر اسکینڈل منظر عام پر لائے گئے۔ عین ممکن ہے کہ سویلین حکومت کے اقدامات میں کچھ خامیاں بھی ہوں مگر کیسا انوکھا انصاف ہے کہ اگر منتخب وزیراعظم پورے عزت و وقار سے بھارتی وزیراعظم کو شاہی قلعہ کے حضوری دربار میں بٹھا کر کھانا کھلائے تو غداری ہے لیکن اگر کوئی آمر اپنی وردی میں اسی بھارتی وزیراعظم کو سیلوٹ کرکے رسیو کرے تو حب الوطنی ہے۔ جون 2013میں وزیراعظم نوازشریف نے اقتدار سنبھالا تو دیگر وزارتوں کی طرح خارجہ امور کا بھی بر احال تھا۔ خارجہ امور کے لئے صرف اتنا کہنا مناسب ہوگا کہ ملک کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں تھی۔ وزیراعظم نوازشریف مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات کا آغاز کرنا ان کی بڑی خواہش تھی۔ بھارت کے ساتھ روایتی حریف کے بجائے ہمسایہ ملک کی حیثیت سے تعلقات شروع کرنے کے خواہاں تھے۔ سرحدی رکاوٹوں سے قطع نظر باہمی تجارت شروع کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ مودی جیسے تعصب رکھنے والے شخص نے بھی پاکستان کے منتخب وزیراعظم کو اپنی تقریب حلف برداری میں بلایا۔ پاکستان آمداور رائیونڈ جانا ایک مثبت پیش رفت تھی۔ مگر پھر کچھ ایسا کیا گیا کہ منتخب وزیراعظم کو بھی ہار ماننا پڑی۔ افغانستان سے بہتر تعلقات کا آغاز بھی نوازشریف کی اولین خواہشات میں سے ایک خواہش تھی۔ مگر پہلے منتخب وزیراعظم کو اچھے اور برے طالبان کے مسئلے میں الجھائے رکھا اور پھر کچھ ایسا کیا گیا کہ پاکستان کا حامی اور حمایت یافتہ اشرف غنی بھی ہمارے خلاف ہوگیا۔ راتوں رات بارڈر مینجمنٹ کے نام پر باڑ اور افغان مہاجرین کے حوالے سے ایکشن نے دہائیوں پرانے تعلقات کو شدید متاثر کیا۔ خارجہ و داخلہ امور کے ماہر بھائی میجر(ر) عامر بڑی پیاری مثال دیتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ ’’آپ کسی کو اپنے گھر بلائیں، گرمجوشی سے استقبال کریں، پرتکلف کھانے سے آؤبھگت کریں اور آخر میں جب اسے باہر چھوڑنے آئیں تو پیٹھ پر ایسے لات ماریں کہ وہ ساری مہمان نوازی بھول کر آپ کا دشمن ہوجائے۔ دیگر معاملات کا تو مجھے نہیں پتہ مگر افغان امور پر میجر (ر) عامر سے زیادہ ڈگری کوئی نہیں ہے۔ مگر میجر (ر) عامر اکثر کہتے ہیں کہ حالیہ معاملات میں اگر کوئی شخص ان سے بھی زیادہ موثر طریقے سے افغان مسائل کا حل نکال سکتا ہے تو وہ چوہدری نثار علی خان کی ذات ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ چوہدری نثار حکمران جماعت کے ان زرخیز دماغوں میں سے ہے جو جذبات کے بجائے معاملات کی حساسیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب افغان مہاجر و عالمی شہرت یافتہ شربت گلہ کا معاملہ ہوا تو میجر (ر) عامر نے ہی وزیرداخلہ چوہدری نثار سے مشاورت کرکے معاملے کو بہتر طریقے سے حل کرانے میں کردار ادا کیا تھا۔ میجر عامر جیسے مسلم لیگ ن کے خیرخواہ کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں مگر بہت سے معاملات دسترس سے باہر بھی ہوجاتے ہیں۔
بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم نوازشریف تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد مضبوط اور آزاد خارجہ پالیسی دینے میں سنجیدہ تھے۔ مگر بہت سی قوتیں ان کے بھی آڑے آگئیں۔ ماضی کی قیادت ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ مگر پھر بھی جب کبھی خارجہ امور سے متعلق مسئلہ ہوا تو ذمہ دار سویلین حکومت کو ٹھہرایا گیا۔ حالانکہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ کچھ اور لوگ تھے۔ آج قیادت کی تبدیلی کے بعد بہت سے معاملات بہتری کی طرف گامزن ہوچکے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں چیف ایگزیکٹو کا کردار نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ مگر یہ ابھی ابتدا ہے۔ لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔ افغان بارڈر کھولنے کا وزیراعظم کا حکم خوش آئند ہے۔ اسی قسم کے احکامات مشرقی سرحد پر بھی آپکے منتظر ہیں۔ اکثر لکھتا ہوں کہ کبھی بھی ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اسی لئے تمام اختلافات اور ہمسایہ ممالک کی سازشوں کو پس پشت ڈال کر برداشت سے کام لینا ہوتا ہے۔ ہم جتنا مرضی دہشتگردی کے خلاف آپریشن کو بڑھا لیں، اجلاس بلالیں، فوجی عدالتیں بنالیں۔ جب تک ہمسایہ ملک بھارت اور افغانستان سے ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ دہشتگردی پر قابو پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج یوم پاکستان کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اعادہ کرنا ہوگا کہ ہم نے صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے میں امن لانے کے لئے اقدامات کرنے ہیں۔ دہشت گرد دہلی میں ہو یا پھر کابل میں وہ دشمن اسلام آباد کا ہوگا۔ باہمی تعلقات بہتر کرکے اور طویل المدت پالیسی بنا کر ہی ہم دائمی امن قائم کرسکتے ہیں۔ وگرنہ تنہا رہ کر یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔



.