حیدرآباد میں جشن، تھر میں ماتم

March 30, 2017

اتوار کو ایک دوست کے ہاںپہنچا تو ٹی وی اسکرین پر شرجیل میمن صاحب چہچہارہے تھے اور بے چارے عوام جو،اب مرور ایام کے ساتھ ’مونث‘ یعنی بے چاری عوام ہیں، جشن منارہےتھے۔ پیپلز پارٹی کے یہ رہنما دبئی کے ’دورے‘ کے بعد حیدرآباد پہنچے تھے۔ مرحوم و مغفور جمیل الدین عالی صاحب کا ایک کالم روزنامہ جنگ میںشائع ہوا تھا جس میں انہوں نے لغت پر علمی بحث کی تھی کہ عوام مونث نہیں۔ یعنی جمع کے صیغے کے ساتھ کہ ’عوام جشن منارہے ہیں‘ درست ہوگا نہ کہ عوام جشن منارہی ہے۔ یا یہ کہ عوام بولتی ہے صحیح نہیں، عوام بولتے ہیںدرست ہے۔ خیر یہ علمی بحث ہے، ظاہر ہے ہم جیسے طالب علم اور وہ بھی بےمغز....ان مباحث سے ان کا کیا لینا دینا! یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں ہم عوام عملی اعتبار سے ’مونث‘ ہی لگتے ہیں۔ حکمراں طبقات نے ہمیں غربت، بھوک، بیماری، دہشت گردی کے ذریعے مار مار کر بس ’’صبح ’بِناکا‘ شام بِناکا صحت کا پیغام بِناکا‘‘ میںلگا رکھا ہے۔ ہم عوام اب وہ نہیںرہے جس کے متعلق حضرت اقبال نے کہا تھا، دریائوں کے دل جس سے دہل جائیںوہ طوفان ! ہم جب کبھی زرق برق لباس پہنے مرد نما این جی اوز فیم خواتین کو مردوں سے عورتوں کے حقوق کی بازیابی سے متعلق تقریریں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو دل ہی دل میں خود پر رشک کرنے لگتے ہیں! لیکن پھر سوچتے ہیں من اپنا پرانا پاپی ہے، خود نمائی ہی کی طرف تو راغب کرے گا!حالانکہ ہم وہ مرد ہیں جو اپنے حقوق 70سال میں بھی حکمراں طبقات و اشرافیہ سے واگزار نہ کراسکے،بنابریں ہم ’بے چاری‘ عورتوں کے حقوق کیا قبضے میںرکھ سکیں گے!تمہید کے کان لمبے ہوگئے، آئیے مروڑتے ہیں۔ کہنا یہ تھا کہ ٹی وی اسکرین پر نظر گاڑے ہم اس خیال میںمنہمک تھے کہ شرجیل میمن صاحب سندھ میں پیپلز پارٹی کے وزیر تھے، شاید اب دوبارہ بھی بن جائیں۔ لیکن ان عوام کے لئے بھلا ان کی کیا خدمات ہیں جو ’دیوانہ وار‘ محور رقص ہیں! ہم عقل پر زور دے کر بھی اور تلاش بسیار کے بعد بھی شرجیل صاحب کی ملک و ملت تو کیا خود پیپلز پارٹی کے لئےکوئی ایسی قربانی برآمد نہ کرسکے کہ جس کی بدولت لوگوں کے ناچنے کی کوئی وجہ ہاتھ آسکے ! ابھی ہم اپنی کم علمی پر سر کھجا ہی رہے تھے کہ چینل پروزیر مملکت مریم اورنگزیب، عابد شیر علی اور طلال چوہدری رونق افروز ہوئے، فرمارہے تھے‘‘ زرداری اور شرجیل میمن نے ’’لوٹ کھسوٹ میںڈاکٹریٹ کر رکھی ہے‘‘ ہمنے دل ہی دل میںکہا تو اتنے صاحبانِ علم سے ہم لاعلم کیوں رہے!پھر سوچا، اونہہ جب ہی تو شرجیل صاحب کا ’ہو جمالو‘ کی تھاپ پر استقبال کیا جارہا تھا..... پھر قسمت نے یاوری کی اور وسعت اللہ خان کا تین روز پرانا کالم ’انجام گلستان کیا ہوگا‘ ذہن کے اسکرین پر نمودار ہوا۔ خیر نسیان صرف میرا مسئلہ نہیں، من حیث القوم ہماری یادش بہ خیر ہیں۔ ہمیں یاد ہو تا تو کیا باری باری،باریاں لگتیں.... اِن دنوں پھر نعرے لگ رہے ہیں،اگلی باری پھر زرداری.... اس کالم سے یاد یہ آیا کہ خیر سے زرداری صاحب اور شرجیل صاحب کی طرح رحمان ملک صاحب بھی ڈاکٹریٹ ’یافتہ ‘ہیں۔ وسعت اللہ خان صاحب کے کالم کے مطابق پارلیمان کے پارکنگ الاٹ میںجب ایک چینل کے نمائندے نے رحمان ملک سے قرارداد پاکستان کے متعلق پوچھا تو انہوںنے جواب دیا’’ میں پوری ہسٹری تو نہیں جانتا لیکن مجھے یاد ہے کہ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے پاکستان میں نہیں ہیں، وہ آج یوکے میں دفن ہیں اگر ہم ان کو لے آتے تو 23مارچ دوبالا ہوجاتی، اب آپ کی سمجھ میں آگیا۔‘‘ یہ تھی سابق وزیر داخلہ اور موجودہ سینیٹر رحمان ملک کی تحقیق جنہیں کراچی یونیورسٹی اعزازی ڈاکٹریٹ سے بھی نواز چکی ہے، غالباً رحمان ملک کا اشارہ(پاکستان کے نام کے خالق) چوہدری رحمت علی کی جانب تھا جو کیمبرج میںدفن ہیں کیونکہ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق تو ڈھاکا میں محو آرام ہیں۔ آپ نے کالم کا اقتباس ملاحظہ فرمایا۔ یہ چونکہ ہماری جانب داری قرار پاسکتی ہے لہٰذا ہم مسلم لیگی موقف کو ایک طرف رکھتے ہیں اور شرجیل صاحب کا موقف سنتے ہیں، فرماتے ہیں ’’نواز شریف، شہباز شریف نے اربوں روپے ہڑپ کئے، چوہدری نثار کو پریس کانفرنس کرتے دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سچائی سے بولتے ہیں لیکن جب ہسٹری دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ان سے زیادہ ’دورنگی‘ انسان دنیا میں کوئی نہیںہے۔‘‘ شرجیل صاحب نے جو لفظ استعمال کیا وہ ہم یہاں لکھنا مناسب نہیں سمجھتے اس لئے اس کے متبادل کے طورپر دورنگی لکھ دیا۔
اب جہاں تک شرجیل صاحب نے ہسٹری کی بات کی ہے تو ہمیں یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ وہ ہسٹری یعنی تاریخ سے آشنا ہیں۔ ہم یہاں حیدرآباد میں ان کی ’تاج پوشی‘ پر مبارکباد دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنی اس کم علمی کا اعتراف کرتے ہیںکہ ہم شرجیل میمن صاحب کی قوم و ملت کے لئےتوکیا، پیپلز پارٹی و جمہوریت کے لئے بھی کسی خدمت کی تاریخ سے آگاہ نہیں ہیں! ہاں اس سے ضرور آگاہ ہیںکہ جس روز حیدر آباد میںجشن بپا تھا، اسی روز اس سندھ، جہاں پر پیپلز پارٹی 9سال سے حکمراں ہے، کے علاقے تھر میںسوگ کا عالم تھا، بھوک کی وجہ سے اسی اتوار کو دو بچے جاں بحق ہوگئے تھے۔خبروں کے مطابق گزشتہ 20روز میں20بچے غذائی قلت کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے ہیں، رپورٹ کے مطابق تھر پارکر میںبھوک بیماری کی وجہ سے دیگر کے علاوہ حاملہ خواتین کو شدید اذیت کا سامنا ہے اس سے بچوںکی اموات میںمزید اضافے کا خدشہ ہے۔ یہاںکے اسپتالوں میںنہ تو دوائیاں ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر و تکنیکی عملہ، جو صورت حال کی خوف ناک عکاسی لئےہوئے ہے۔
رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ مسلم لیگی کہتے ہیں پیپلز پارٹی والے ڈاکو ہیں، پیپلز پارٹی والوں کا استدلال ہے مسلم لیگ نے ملک کو لوٹ کر کھالیا، عمران خان دونوں جماعتوں کو لٹیرا کہتے ہیں جبکہ دونوں جماعتیں عمران خان صاحب کو جھوٹا قرار دیتی ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک گائوں میںتین نمبردار جو،اب بوڑھے ہوچکے تھے،ایک دوسرے کے سر لڑکپن وجوانی کی رنگینیوں کے الزامات لاد رہے تھے،قریب ہی ایک ناچنے والا یہ سُن رہا تھا، سوچنے لگا کہ الزامات اگردرست ہیں توپھر تو یہ نمبرداری کے اہل ہی نہیں تھے،اور جھوٹ بول رہے ہیں تو لامحالہ جھوٹوں کو بھی نمبر دار نہیں ہونا چاہئے تھا! پھر اپنے آپ ہی بڑبڑایا، بےکردار ہیں یا جھوٹے،سانوں کی ....



.