لاعلمی قابل معافی ہے لیکن بدنیتی نہیں؟

April 16, 2017

لاعلمی قابل معافی ہے لیکن بدنیتی ایسا جرم ہے جس کی سزا دونوں جہانوں میں ملتی ہے۔ جب ایک علم و فضل کا دعویٰ کرنے والا شخص جو مورخ ہونے کا دعویٰ بھی کرے اتنی بنیادی اور عام معلومات سے انکار کرے اور ببانگ دہل تاریخی حقائق کو مسخ کرے تو اس کا رویہ لاعلمی کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ خبث باطن کہلاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں کانگریسی پروپیگنڈے اور ہندو ذہینت کے ’’ہرکارے‘‘ یا نمائندے موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً پاکستان کی نظریاتی اساس میں بدگمانیوں کا زہر گھولتے رہتے ہیں اور قائداعظم سے قیام پاکستان کے جرم کا انتقام لیتے رہتے ہیں۔ تحریک پاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے نوجوان نسلوں میں بدظنی اور بدگمانیاں پھیلانے کے لئے پہلے پہل جناب ولی خان نے مہم شروع کی ۔ یہ کتاب تحقیقی حوالے سے جھوٹ کا پلندہ ہے اور اس کے اب تک کئی جوابات چھپ چکے ہیں جن میں مجھے فوری طور پر اکرام علی ملک اور صلاح الدین کے اسمائے گرامی یاد آرہے ہیں۔ ولی خان کے الزامات کا پروفیسر وارث میر مرحوم نے بھی مدلل جواب دیا تھا اور پختونستان اسٹنٹ کے عنوان سے سات مدلل مضامین لکھ کر کانگریسی ہرکاروں کا منہ بند کر دیا تھا۔ قابل مطالعہ یہ مضامین ’’وارث میر کا فکری اثاثہ‘‘ جلد دوم میں شامل ہیں۔ اس کتاب میں پروفیسر وارث میر نے ولی خان کے اس شوشے کا ذکر کیا تھا کہ 23مارچ 1940کا پاکستان ریزولوشن سر ظفر اللہ خان نے ڈرافٹ کیا اور برطانوی حکومت کی منظوری سے وائسرائےلنلتھکو نے قائداعظم کو دیا۔ یہ تاریخی جھوٹ اس قدر تواتر سے بولا اور لکھا گیا کہ اکثر لکھاریوں اور ’’پی ایچ ڈی‘‘ ڈگری یافتہ پروفیسروں نے اسے بلا تحقیق تسلیم کیا۔ حیرت نہیں صدمے کی بات ہے کہ اس سال بھی 23 مارچ کے روزنامہ ڈان کے خصوصی سپلیمنٹ میں ڈاکٹر نعمان احمد نے اپنے مضمون کا آغاز ہی اس جھوٹ سے کیا۔ صدمہ اس لئے ہوتا ہے کہ محقق ہونے کے دعویدار تحقیق کیوں نہیں کرتے اور انٹرنیٹ پر پھیلائے گئے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اتنے بڑے جھوٹ بول اور لکھ دیتے ہیں کہ ان کی سطحیت پر رونا آتا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ایک منظم سازش کے تحت انٹرنیٹ پر قائداعظم اور پاکستان کے حوالے سے بےتحاشا غلط اور بے بنیاد مواد شامل کیا گیا ہے جس کا مقصد نوجوان نسلوں کو بدظن کرنا ہے۔ اس جھوٹے یعنی ’’کذبی مواد‘‘ میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا قومی ترانہ لکھوایا۔ تحقیق کرکے میں اس جھوٹ کا دامن تار تار کر چکا ہوں اس کے باوجود یہ جھوٹ تواتر سے پھیلایا جارہا ہے تو بقول کالم نگار شاکر حسین شاکر اب تو ایک نوجوان نے اس پر اپنا ایم فل کا تھیسس کتابی صورت میں بھی چھاپ دیا ہے۔
اس مہم کا تازہ تیر ہمارے ایک مبارک ڈاکٹر صاحب نے چھوڑا ہے جو کئی دہائیوں سے قائداعظم کی عظمت اور تحریک پاکستان کی حقانیت کے حوالے سے نوجوان نسلوں کے ذہنوں میں بدگمانیاں بھر رہے ہیں۔ ان کے اسی سلسلے کی کڑی یہ دعویٰ ہے کہ محمد بن قاسم کو شہید نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس نے خودکشی کی تھی۔ مقصد ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے ہیرو کو حرام موت مارنا ہے۔ صدیوں سے طے شدہ اس حقیقت کو بھی انٹرنیٹ کی مدد سے مسخ کر دیا گیا ہے حالانکہ محمد اسحٰق بھٹی نے اپنی تحقیقی کتاب ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘ میں مستند حوالوں سے اس پر روشنی ڈالی ہے اور ثابت کیا ہے کہ عمر بن قاسم نے شدید سزائوں سے تنگ آکر جیل میں خود کشی کی تھی نہ کہ محمد بن قاسم نے جسے ’’سلیمان کے حکم پر جیل میں اتنی اذیتیں پہنچائیں کہ وہ مرگیا‘‘ (صفحہ 166) اس موضوع پر پھر کبھی ان شاء اللہ۔
اب ذرا پاکستان بیزار عناصر کی دیدہ دلیری کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔ ڈاکٹر مبارک نے یکم اپریل 2017 کو ایک معاصر روزنامہ میں لکھا’’بعض ریاستی مورخ تاریخ کو مسخ کرکے واقعات کو چھپا کر قوم کو گمراہ کررہے ہیں۔ 1940کی قرارداد کو دلکش داستان بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد شروع ہوا۔۔۔ 1940کی ریزولوشن کی اصل داستان دستاویزات میں محفوظ ہے اور انٹرنیٹ پر بھی دی گئی ہے۔ ہندوستان کے وائسرائے لنلتھگو نے یہ قرارداد چوہدری ظفر اللہ سے لکھوائی بعد میں یہ مسودہ قائداعظم اور برطانوی حکومت کی توثیق سے 23 مارچ 1940کو جلسہ عام میں پیش کیا گیا‘‘۔ میں ڈاکٹر مبارک علی کے الزام کی پہلے بھی تردید کر چکا ہوں لیکن اس وقت تک مجھے سر ظفر اللہ کے اپنے بیان کی فوٹو کاپی کا انتظار تھا جو اس حوالے سے معتبر ترین سند اور ثبوت ہے۔ مجھے علم تھا کہ ظفر اللہ خان نے ولی خان کے الزام کی تردید کرتے ہوئے 25دسمبر 1981میں ایک بیان جاری کیا تھا جو ڈان کے پہلے صفحے پر چھپا تھا لیکن میں اصل بیان کو پڑھنا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر زاہد منیر نے تحقیق کا حق ادا کرتے ہوئے مجھے یہ بیان بھجوایا تاکہ اس جھوٹ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جاسکے۔
حیرت نہیں صدمہ ہے کہ کیا ڈاکٹر صاحب سچ مچ اتنے لاعلم ہیں انہیں پتا ہی نہیں کہ قرارداد پاکستان کو ملکی سطح پر منانے کا سلسلہ 1941سے شروع ہو گیا تھا اور فروری 1941میں مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کی سفارش پر آل انڈیا مسلم لیگ کونسل نے 23فروری کو اس کی منظوری دی تھی۔ (بحوالہ قائداعظم کی تقاریر از خورشید یوسفی جلدIIصفحہ 1322)۔ کیا واقعی ڈاکٹر صاحب کو علم نہیں کہ یکم مارچ 1941کو پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے لاہور میں پاکستان کانفرنس منعقد کی تھی اور یکم مارچ کو اسلامیہ کالج گرائونڈ میں قائداعظم نے جھنڈا لہرایا تھا اور طلبہ سے کہا تھا (My advice is to March on)۔ دو مارچ کو قائداعظم نے پاکستان کانفرنس پر صدارتی خطبہ دیتے ہوئے اعلان کیا تھا (It is a matter of life and death to the Muslamans and is not a counter for bargaining)خورشید یوسفی صفحہ 133۔
گویا 1941میں ہی قائداعظم نے واضح کردیا تھا کہ مطالبہ پاکستان مسلمانوں کے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ یہ کسی سیاسی سودے بازی کا شاخسانہ نہیں، جو حضرات مسلم لیگ کی جانب سے کابینہ مشن کو سودے بازی کہتے ہیں انہوں نے قائداعظم کی اس موقع پر کی گئی دو تقاریر نہیں پڑھیں۔ قائداعظم اور مسلم لیگ کونسل نے کابینہ مشن پلان اس لئے قبول کیا تھا کہ انہیں اس اسکیم میں پاکستان کا حصول نظر آرہا تھا اور مخصوص عرصے کے بعد صوبوں کو اسکیم سے نکلنے اور آزادی حاصل کرنے کا پورا اختیار حاصل تھا۔ اس موضوع پر پھر کبھی۔ مختصر یہ کہ قرارداد پاکستان کو ملکی سطح پر منانے کا سلسلہ مارچ 1941میں شروع ہوا تھا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔
گزشتہ کالم میں شواہد سے میں نے ثابت کیا تھا کہ قرارداد پاکستان مسلم لیگ کا اپنا مطالبہ اور اپنی قرارداد تھی جسے برطانوی حکومت نے ناقابل عمل اور لنلتھگو نے احمقانہ قرار دیا۔ ڈاکٹر مبارک علی اور ان کے نظریاتی شاگرد اس قرارداد کا سہرا ظفر اللہ خان کے سر باندھتے ہیں۔ اب ملاحظہ فرمائیے سر ظفر اللہ خان کا بیان جو قیام پاکستان کے 24برس بعد اخبارات میں شائع ہوا جب اس راز سے پردہ اٹھانے میں فائدہ ہی فائدہ تھا، نقصان کوئی نہیں تھا اس کے باوجود سچائی بیان کرتے ہوئے سر ظفر اللہ خان نے اس الزام کی تردید کی۔ اس وضاحت کی نوبت اس لئے آئی کہ اس وقت ولی خان نے تازہ تازہ شوشہ چھوڑا تھا۔
ڈان کے صفحہ اول پر 25دسمبر 1981کو چھپنے والا سر ظفر اللہ خان کا بیان ملاحظہ فرمائیں:
Sir Zafarullah has denied having ever presented a formula of dividing the sub-continent to the then Viceroy- Vehemently refuting (Wali Khan's assertions)he stated that he only gave opinions to the Viceroy whenever asked to do so... It is unthinkable that his opinions were passed on the Quaid-e-Azam and he accepted without hesitation... It was unimaginable that a formula initiated on March 12 was incorporated on March 23, 1940 during those days it took more than two weeks for a communication to reach India from England.
قائداعظم کی عظمت کردار کو داغدار کرنے اور قرارداد پاکستان کا کریڈٹ برطانیہ کو دینے والے لکھاری، مورخ اور دانشور اور سیاستدان قوم سے معافی مانگیں کہ خود سر ظفر اللہ خان نے اس بات کو ناقابل تصور اور جھوٹ قرار دیا ہے۔ بلاشبہ لاعلمی قابل معافی ہے لیکن بدنیتی نہیں۔



.