پاکستانی طالبان ،بھارتی ایجنٹ!

April 28, 2017

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے پاک فوج کی تحویل میں جو اعترافی بیان دیا، وہ اس حقیقت کی ایک اور ٹھوس شہادت ہے کہ ایک مسلم ملک افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی کی مزاحمت کے نام پر دوسرے مسلم ملک پاکستان میں دہشت گردی اور قتل وغارت کا بازار گرم رکھنے والے گروپ غیر ملکی قوتوں خصوصاً بھارت کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کئی انتہاپسند گروپ نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس وقت سرگرم ہوئے جب امریکہ کی قیادت میں چالیس سے زیادہ ملکوں کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور القاعدہ اور اس کے حلیف گروپوں کے سرگرم عناصر سے افغانستان میں نمٹنے کی بجائے انہیں پاکستان میں دھکیلا گیا۔ اندرون ملک دہشت گردی، تخریب کاری اور فوجی چوکیوں اور تنصیبات پر حملوں کا جواز یہ دیا گیا کہ اسلام آباد نے چونکہ غیر ملکی فوجوں کو بعض معاملات میں معاونت فراہم کی اس لئے وہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سلسلہ رفتہ رفتہ بعض قبائلی علاقوں کے مسلح گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بننے اور بعد ازاں بات چیت کے ذریعے ان گروپوں کو معاشرے میں امن سے رہنے کا موقع دینے کی کوشش کی ناکامی سے گزرتا ہوا فوجی آپریشن کے جن مرحلوں تک پہنچا، اس کی تفصیل سب کے سامنے ہے لیکن اس سارے ہنگامے میں یہ حقیقت نظروں سے اوجھل ہو گئی کہ نائن الیون سے بہت پہلے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے لسانیت اور فرقہ واریت سمیت کئی تعصبات کو ہوا دینے کی کوششیں کی گئیں۔ اور کئی ایسی تنظیمیں وجود میں بھی آئیں جن کے ناموں سے عسکریت پسندی جھلکتی تھی۔ مالاکنڈ ایجنسی میں نفاذ شریعت کے نام پر کئی روز تک شورش کی کیفیت پیدا کی گئی۔ یہاں تک کہ پاک فوج نے انتہائی مہارت اور احتیاط سے صورتحال کو نارمل کر دیا۔ اس منظر نامے کو ذہن میں رکھا جائے اور قیام پاکستان کے وقت سے نئی مملکت کےخاتمے کی تاریخیں نئی دہلی کے بعض رہنمائوں کی طرف سے دیئے جانے کے پس پردہ عزائم کو سامنے رکھ کر جب احسان اللہ احسان کے بیان پر مبنی 5منٹ 53سیکنڈ کے ویڈیو کلپ کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو اس باب میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ بعض عناصر نے مختلف ناموں سے تنظیمیں بنا کر خود کو اسلام کا سپاہی، غیر ملکی مداخلت کا مزاحمت کار اور جہادی ظاہر کر کے قبائلی علاقوں سمیت اندرون و بیرون ملک نوجوانوں کو جال میں پھنسا کر اپنے ذاتی مفادات اور دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھایا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک موقع پر پاک فوج سے جھڑپ میں ہلاک ہونے والے بعض شدت پسندوں کی لاشوں سے ان کے غیرمسلم ہونے کے انکشاف کے باوجود لوگ ان گروپوں کے دام فریب میں آتے رہے اور کم عمر نوجوانوں کو خودکش بمباروں کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ احسان اللہ احسان نے بھی اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ ہم اسلام کا نام لیتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ بیان میں تصدیق کی گئی کہ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغانستان کی معاونت حاصل تھی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کو ٹارگٹ دیتی اور ہر حملے کی قیمت ادا کرتی ہیں۔ بیان سے یہ بھی واضح ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے میں مدد دیتی ہے جبکہ افغانستان میں قیام اور نقل و حرکت کے لئے انہیں خصوصی پرمٹ دیئے گئے ہیں۔ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں لال پور اور پارچہ کے محفوظ ٹھکانوں میں موجود پاکستانی شدت پسندوں پر پاک فوج کی گولہ باری کے واقعہ کے بعد سے ان شدت پسندوں میں خوف وہراس پایا جاتا ہے۔ احسان اللہ سے تفتیش کے دوران یقیناً پاک فوج کو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی تفصیلات سمیت بہت سی مفید معلومات حاصل ہوئی ہوں گی جبکہ پاکستان کے پاس غیر ملکی مداخلت کے مزید شواہد بھی آگئے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان شواہد کی بنیاد پر عالمی برادری کے سامنے دشمن کا اصل چہرہ لانا چاہئے۔

.