کراچی مردم شماری، پولیس افسران لاکھوں روپے کے مقروض

May 01, 2017

کراچی میں مردم شماری مکمل ہوئے کئی ہفتے گزر گئے لیکن دیگر ڈسٹرکٹس سے کراچی آئی ہوئی پولیس کی نفری کے قیام و طعام اور دیگر انتظامی اخراجات کی ادائیگیاں اب تک نہیں کی گئیں جس سے پولیس افسران لاکھوں روپے کے مقروض، مالی مشکلات کا شکار اور غیرقانونی طریقوں سے معاملات چلانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ادائیگیوں کیلئے ہفتوں سے بہانے بازیاں کرنے والے مقروض افسران قرض خواہوں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق مردم شماری کیلئے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ پولیس کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں جس کیلئے سندھ بھر سے پولیس کی نفری کو کراچی طلب کرکے تھانوں کے حوالے کیا گیا، ہر تھانے کو کم سے کم 30 جبکہ زیادہ سے زیادہ 150 اہلکاروں کیلئے سوا مہینے تک مسقل قیام و طعام کا انتظام کرنا پڑا۔

کئی تھانوں میں قیام و طعام کے انتظامات نہیں تھے جو پولیس افسران کی ہدایت پر ہنگامی بنیادوں پر کئے گئے جبکہ کئی تھانوں میں زیادہ افراد کیلئے لیٹرین اور باتھ روم نہیں تھے وہاں نئی تعمیرات کرائی گئیں، کئی عمارتوں میں وائٹ واش کرایا گیا، نفری کے طویل قیام کیلئے دریاں، پنکھے اور بستروں کا انتظام بھی تھانوں کی انتظامیہ نے ہی کیا۔

روزانہ کم سے کم 30 یا اس سے زائد ڈیڑھ سو افراد کیلئے ناشتے، دوپہر کے اچھے کھانے اور ڈنر کا بندوبست معمولی کام نہیں تھا، نفری کو صبح مقررہ وقت پر ان کے پوائنٹس پر روزانہ پہنچانا بھی ایک الگ خرچہ تھا، یہی نہیں ان انتظامات کو چیک کرنے کیلئے پولیس افسران کی ویجیلنس ٹیمیں بھی تشکیل دی گئیں جو نفری کو کھلائے جانے والے کھانے کی کوالٹی اور رہائشی انتظامات چیک کرتی تھیں۔

انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے کئی پولیس افسران نے بھی تھانوں کے دورے کئے اور ناکافی انتظامات کی اپنی نگرانی میں تکمیل کرائی۔ اتنے لمبے چوڑے انتظامات کیلئے شروع میں تو تھانوں کو فنڈز کی فراہمی ایک دھیلا بھی نہیں کی گئی، یوں چند دن میں ہی ایس ایچ اوز کی مالی حالت خراب ہوگئی، مجبوراً کئی ایس ایچ اوز اپنے علاقے کے مخیر حضرات سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے، کئی نے پائی پیسے کے بغیر شاندار انتظامی امور کی تکمیل کیلئے عوامی مدد بھی لی۔

پولیس افسران کے خاموش احتجاج پر مردم شماری شروع ہونے کے چند دن بعد تھانوں کو مجموعی طور پر پچاس پچاس ہزار روپے فراہم کئے گئے مگر اتنی نفری کیلئے کئی ہفتوں کے کھانے پر ہر تھانے کے لاکھوں روپے خرچ ہوئے اور ٹرانسپورٹ، تعمیرات یا دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ محکمہ مردم شمادی کی طرف سے تمام معاملات بخوبی انجام پانے کیلئے سندھ پولیس کو تمام ادائیگیاں ایڈوانس میں کردی گئی تھیں مگر تھانوں کو ابھی تک مزید کچھ نہیں ملا۔

پولیس حکام کی جانب سے ہر تھانے کے ہیڈ محررز کو نفری کے پک اینڈ ڈراپ اور فوڈ کی سپلائی کیلئے ٹرانسپورٹیشن کی مد میں فی کس 65 ہزار روپے کے بل فراہم کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں مگر ادائیگیاں کچھ نہیں۔ پیسے مانگنے پر بعض ایس ایچ اوز کو دیگر بے قاعدگیوں کے الزامات کے بہانے معطل کرکے عہدوں سے ہٹانے جیسی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان نے جنگ کو بتایا کہ محکمہ شماریات کی جانب سے سندھ پولیس کو ادائیگی تو کردی گئی تھی مگر اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کی جانب سے اخراجات کی مد میں رقوم کے اعتراضات کے تنازعات پر تاخیر ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے اس دور میں اے جی آفس کھانے کیلئے فی کس 25 روپے کی منظوری دے رہا تھا جبکہ اب یہ رقم فی کس 100 روپے کی گئی ہے۔ آزاد خان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں خط و کتاب جاری ہے اور منظوری ملتے ہی رقوم تھانوں کو فراہم کردی جائیں گی۔