خونی ٹوکہ

June 11, 2017

چند برس کی بات ہے کہ ہمارے قریبی گائوں کے ایک ہونہار لڑکے کے ساتھ انہونی ہو گئی۔ ایف ایس سی میں ایک ہزار کے لگ بھگ نمبر لینے کے بعد میڈیکل کالج کے لئے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک حادثے میں دایاں بازو کہنی سے ذرا نیچے تک کٹ گیا اور جان کے لالے پڑ گئے۔ طویل علاج کے بعد زخم تو بھر گیا، مگر خواب بکھر گئے اور بیچارہ معذور کوٹہ پر کسی اسکول میں لیب اٹینڈنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ایک ملاقات میں حادثے کی تفصیل پوچھی، تو بولا میری بربادی کی ذمہ دار چارہ کترنے والی ٹوکہ مشین ہے۔ انٹری ٹیسٹ ان دنوںمیرے حواس پر چھاپا ہوا تھا۔ اس منحوس سہ پہر بھی ٹوکے میں چارہ فیڈ کرتے وقت بھی امکانی سوالات دہرا رہا تھا کہ بے دھیانی میں ہاتھ مشین میں پھنس گیا اور اندر دھنستا چلا گیا بہت زور لگایا مگر بے سود، سوئچ آف کرنے والا کوئی دوسرا بھی قریب نہیں تھا۔ پہلے ہاتھ کٹا، پھر بازو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر چارے میں شامل ہوتا رہا۔ اور مجھے ہوش نہ رہا۔
دیہاتی پس منظر رکھنے والے قارئین اس قسم کے حادثات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مگر میڈیا سمیت کوئی بھی ان کا نوٹس نہیں لیتا۔ کسی صنعتی مزدور کو اگر خدانخواستہ اس قسم کا حادثہ پیش آجائے، تو درجنوں محکمے حرکت میں آجاتے ہیں۔ فیکٹری مالکان کی سرزنش ہوتی ہے۔ حفاظتی اقدامات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور متاثرہ کارکن کے لئے معاوضہ وغیرہ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس قسم کا تردد زرعی کارکنوں کے نصیب میں نہیں۔ ان کے ہاتھ کٹ جائیں یا پائوں، یا بھلے جان سے ہی کیوں نہ چلے جائیں، سب تقدیر کا لکھا کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور ان کے لئے کوئی کچھ نہیں کرتا۔ اس خطہ میں اس نوع کے حادثات ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں۔ مشینی ٹوکہ کی ایجاد سے پہلے کسان سلطان راہی فلم دستی ٹوکہ سے چارہ کترا کرتے تھے۔ مٹھی میں چارہ دبا کر ہموار لکڑی پر رکھتے اور دستی ٹوکہ سے اس کی کترائی کرتے۔ ہاتھ اور انگلیاں تب بھی کٹتی تھیں۔ مگر جب سے مشینی ،بالخصوص موٹر سے چلنے والا ٹوکہ آیا ہے، حادثات کی سنگینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور ہمارے دیہی علاقوں میں ٹنڈمنڈ مرد عورتیں اور بچے دیکھے جا سکتے ہیں۔
مقام افسوس کہ اس انسانی المیہ پر ہماری نظر نہیں گئی، اور اسکے سدباب کا کسی نے نہیں سوچا، اگر خیال آیا بھی تو انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس (ICRC) والوں کو، جو آفات سے، خواہ قدرتی ہوں یا انسان کی پیدا کردہ، گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے پنجہ آزمائی کرتے آئے ہیں۔ICRC نے اس قسم کے حادثات کا نہ صرف نوٹس لیا، آگہی مہم بھی چلائی۔ جس کی بعض وڈیوز دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مظفر گڑھ میں بحالی کا مرکز بھی قائم کیا۔ جہاں متاثرین کا علاج ہوتا ہے اور مصنوعی اعضا بھی لگائے جاتے ہیں۔ ICRC والوں نے مسئلہ کی طرف حکومت کی توجہ بھی دلائی کہ ان مشینوں کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ جس پر پنجاب سرکار نے صحت، زراعت، صنعت اور لیبر کے محکموں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی، اس ڈولپمنٹ کو تین برس ہونے کو آئے، مگر بازار میں محفوظ قسم کی مشین ہنوز دستیاب نہیں۔
یہ صرف پنجاب ہی کا مسئلہ نہیں اور نہ صرف پاکستان کا، بلکہ پورے سائوتھ ایشیا کا مسئلہ ہے اس کے ہر دوسرے گائوں میں ٹوکہ مشین کا متاثرہ شخص موجود ہے۔ غازی آباد کے ایک گائوں کی نوبیاہتا دلہن کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ جو شادی کے چند روز بعد ہی ٹوکہ مشین میں چارہ فیڈ کرتے ہوئے دونوں ہاتھ کٹوا بیٹھی تھی، اور اس قدر حواس باختہ تھی کہ گھر والوں کے لئے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ مقام حیرت کہ سرکاری سطح پر بھارت میں بھی اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔ البتہ غازی آباد کے ایک مستری نے کاوش ضرور کی ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے وضع کردہ لاکنگ سسٹم کی بدولت جونہی ہاتھ پھنسے گا، مشین خود بخود رک جائے گی۔ تاہم بوجوہ اس کی ترویج بھی تجارتی بنیادوں پر نہیں ہو پائی۔
بیشک یہ کام حکومتوں کے کرنے کا ہے۔ مقام افسوس کہ پورے سائوتھ ایشیا میں کہیں بھی اس حوالے سے سلسلہ جنباتی نہیں ہو پایا۔ کسانوں کے ہاتھ پاکستان میں بھی کٹ رہے ہیں۔ بھارت میں بھی، بنگلہ دیش میں بھی اور نیپال، سری لنکا اور بھوٹان میں بھی، مگر اس مسکین مخلوق کی داد رسی کے لئے کہیں بھی کچھ نہیں ہوا۔ پاکستانی پنجاب میں چار محکموں پر مشتمل کمیٹی کی صدارت ہمارے سیماب صفت وزیراعلیٰ جناب شہباز شریف بھی کر چکے مگر معاملہ جوں کا توں ہے۔ حفاظتی اقدامات سے مزین مکمل طور پر محفوظ ٹوکہ مشین ابھی تک تخلیق نہیں ہو پائی۔ جو یقیناً کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ بالخصوص اس خطہ کے لئے جہاں دو جوہری طاقتیں بھی موجودہیں اور علاقائی تعاون کی تنظیم سارک بھی۔ جس کی اب تک کی کارکردگی سب کے سامنے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک پڑھے لکھے پارلیمنٹرین دوست اگلے روز مزا قاً فرما رہے تھے کہ سائوتھ ایشیا کا مشترکہ مسئلہ ہونے کے ناطے ٹوکہ مشین پروجیکٹ سارک کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اور اگر وہ اسے حل کرنے میں کامیاب ہو گئی، تویہ اس کی ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ تفنن برطرف، یہ واقعی سنگین مسئلہ ہے۔ جس پر کسی نہ کسی کو توجہ دینا ہوگی۔ اگر حسب سابق ایسا کچھ نہیں ہوتا تو شاید اعلیٰ عدلیہ کو نوٹس لینا پڑےزیادہ دن نہیں گزرے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے 13برس کے فلک شیر نامی لڑکے کے ساتھ اس نوع کا سانحہ بیت جانے پر از خود نوٹس لیا تھا۔ صفدر آباد ضلع شیخوپورہ کے فلک شیر کا دایاں ہاتھ ٹوکہ مشین میں آکر کٹ گیا تھا۔ تب اخباروں میں نکلا تھا کہ یہ بہیمانہ حرکت لڑکے کی مالکن زمیندارنی نے غصے میں پاگل ہو کر جان بوجھ کر کی ہے۔ جو تحقیق پر اتفاقیہ حادثہ ہی ثابت ہوئی۔ فلک شیر بھی غیر محفوظ ٹوکہ مشین کا شکار بنا تھا۔ ایسے میں خونخوار ٹوکہ مشین کی تباہ کاریوں سے کسانوں کو بچانے کے لئے از خود نوٹس کی ضرورت شاید اور بھی بڑھ جاتی ہے۔