شیر ازہ ہوا ملت ِ مرحوم کا ابتر

June 15, 2017

ہماری ہمیشہ سے یہ تمنا رہی ہے کہ مسلم امہ کی عظمت کے گیت گائے جائیں۔ اس کی وحدت، استحکام، سربلندی اور ترقی کے قصے بیان کیے جائیں۔ عظمت رفتہ کی دھاک بٹھاتے ہوئے مستقبل کے سہانے خواب دکھائے جائیں، اقبالؒ کی زبان میں ہمہ وقت یہ گنگنایا جائے کہ ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘‘ آخر یہ دردمندانہ خواہش کیوں نہ ہو جب کتاب مقدس یہ فرما رہی ہے کہ ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے بازی مت کرنا‘‘۔ کتاب ہدایت تو یہ بھی فرما رہی ہے کہ ’’آپ کی یہ امہ ایک ہی امہ ہے‘‘ اور اہل ایمان کی یہ صفت بیان کرتی ہے کہ ’’وہ آپس میں باہم نرم خو جبکہ منکرین کے لیے سخت یا شدید تر ہیں‘‘ اس نیک تمنا و آرزو کے علی الرغم واقعاتی و حقیقی صورتحال تکلیف دہ بلکہ اذیت ناک ہے۔ آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا ویری اور شکاری بنا ہوا ہے۔ اقوام دیگر کے سامنے کردار کا کوئی اچھا نمونہ پیش کرنے کی بجائے ہم جبر، وحشت اور دہشت کا سمبل بنے کھڑے ہیں جس پر افسردہ و دکھی ہو کر شاعر مشرق کو بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ’’یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود‘‘ ۔ ہمارے مسلمان عرب بھائی بالعموم اپنے آپ کو اونچا اور غیر عرب کو نیچا مسلمان خیال کرتے ہیں۔ امہ میں عرب و عجم کی تقسیم اور منافرت آگے چل کر کون کون سے بھیانک نتائج نکال سکتی ہے ہمیں ہنوز شاید ان کا ادراک نہیں ہے۔
سعودی عرب بجا طور پر پورے عالمِ اسلام کی محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز ہے پوری مسلم امہ کی جان ہے۔ سعودی شاہ کو پوری مسلم امہ میں خادم حرمین شریفین کے القاب سے پکارا جاتا ہے OIC جیسی ایک مشترکہ اسلامی تنظیم کا قیام بھی سعودی سلطنت کی کاوشوں سے ممکن ہوا تھا۔ پوری دنیا میں اسلامی مراکز، مدارس اور مساجد کے پھیلاؤ میں سعودی حکومت کا دستِ تعاون جاری و ساری رہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں جو عرب اسلامی امریکی سمٹ منعقد ہوئی تھی تو اسلامی اتحاد کی ایک نئی گونج سنائی دی بتایا تو یہی جا رہا تھا کہ یہ اسلامی اتحاد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف صف آراء ہو گا لیکن قابلِ افسوس پہلو یہ سامنے آیا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی سے بڑھ کر اس کا ہدف ایک مخصوص فرقہ قرار پایا۔ بلاشبہ اس وقت بشارالاسد آمریت کے ہاتھوں شام میں بہت ظلم ہو رہا ہے شامی عوام اس وقت آگ اور خون کے دریا میں غوطے کھا رہے ہیں، حکومتِ ایران کو اس صریحی ظلم و جبر میں بشارالاسد حکومت کی پشت پناہی سے اجتناب کرنا چاہیے تھا جس طرح کہا گیا ہے کہ ’’اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘۔ پوچھا گیا کہ مظلوم کی مدد تو قابلِ فہم ہے مگر ظالم کی مدد سے کیا مراد ہے؟ بتایا گیا کہ ’’اُسے ظلم سے روک کر‘‘۔
یمن و شام میں ہمارے خلیجی بھائیوں کا رول صلح جوئی اور امن پسندی کا ہونا چاہئے تھا ان کے اگر اسد حکومت کے ساتھ اچھے برادرانہ تعلقات تھے بھی تو انہیں کام میں لاتے ہوئے یہ ترغیب دیتے کہ اب بس کر دو اپنے عوام کی مزید خون ریزی سے ہاتھ اٹھا لو۔ مسلم امہ میں خلفشار اور انتشار کی کہانی یہیں تک رہتی پھر بھی کوئی بات تھی جبکہ یہاں تو معاملہ کہیں آگے تک چلا گیا ہے۔ سعودی عرب کی عین ہمسائیگی میں واقع اسلامی ملک قطر کے متعلق بھی یہ شواہد پیش کیے جا رہے ہیں کہ وہ دہشت گرد تنظیموں اور شخصیات کی نہ صرف حمایت بلکہ مادی سپورٹ بھی کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ عرب ممالک میں ہلکی پھلکی ٹسل تو اندر خانے عرصے سے چلی آرہی تھی لیکن اب بشمول جمہوریہ مصر، متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین خطے کی دیگر ریاستوں نے جس طرح قطر کا سفارتی و تجارتی بائیکاٹ کیا ہے اس سے نہ صرف خطے میں بلکہ پوری مسلم و عرب ورلڈ میں ایک بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ بھائیوں سے بے اعتدالیاں ہو جاتی ہیں زیادتیاں بھی ہو جاتی ہیں اس پر ایک طرزِ عمل تو یہ ہوتا ہے کہ منافرت کو بڑھاتے ہوئے جنگی فضا پیدا کر دی جائے جبکہ دوسرا محتاط رویہ یہ ہوتا ہے کہ مذاکرات اور سفارت کاری کو کام میں لایا جائے۔ اپنے مشترکہ دوستوں کو بیچ میں ڈال کر متنازع ایشوز کو اعلیٰ آدرشوں کی روشنی میں حل کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی تشکیل جیسا معرکہ اسی سوچ کے زیر اثر سر ہوا تھا اگر اقوامِ عالم اتنے شدید فکری بُعد کے باوجود اس مقام تک پہنچ سکتی ہیں تو یہ دن رات امہ امہ کا ورد کرنے والے صبر حوصلے اور برداشت سے کام کیوں نہیں لے سکتے۔
اس حوالے سے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا رول قابلِ ستائش ہی نہیں پوری امہ کے لیے قابلِ فخر ہے۔ ان کا رویہ ترک صدر ایردوان سے بھی بہتر دانشمندانہ اور محتاط ہے ۔ انہوں نے تمام تر افواہوں کے باوجود ایک نوع کا توازن و اعتدال بہرصورت قائم رکھا ہے۔ بحیثیت قومی قائد خطے سے کشیدگی ختم کرنے کے لیے وہ جس طرح ایران، افغانستان اور ہندوستان پر Peace attack کرتے رہتے ہیں اسی جذبہ امن و سلامتی کے ساتھ وہ اپنے اعلیٰ سطحی وفد کو ساتھ لے کر ارضِ مقدس میں شاہ سلمان کے پاس پہنچے ہیں اور پرعزم ہیں کہ قطر کی حکومت کو بھی اعتماد میں لے کر اتحاد امہ کے لیے جو ہو سکا وہ کریں گے۔ آج امہ کی جو حالت ہے اقبال نے اس کی کیا پرسوز ترجمانی کی ہے؎
شیرازہ ہوا ملت ِمرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلماں کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد ؐ
آیاتِ الٰہی کا نگہباں کدھر جائے

.