فادرز ڈے۔مغرب اور مشرق

June 25, 2017

ماں بے شک ٹھنڈی’’چھاں‘ ‘ ہوتی ہے لیکن بقول شخصے اباجی بھی کسی اے سی سے کم نہیں ہوتے فرق صرف اتنا ہے کہ کسی وقت ان کا کمپریسر گرم ہوجاتا ہے۔گزشتہ دنوں فادرز ڈے منایا گیا اس حوالے سے ایک قاری کا خط آپ کی خدمت میں پیش ہے۔’’18جون کا دن دنیا بھر میں فادرز ڈے کے طور پر منایاگیا لیکن مجھے دن بھر یہ سوال پریشان کرتا رہا کہ کیا زندگی بھر اپنی اولاد کی خوشیوں کے لئے خون پسینہ ایک کرنے والی ہستی کے احسانات ہم ایک دن میں یاد کرسکتے ہیں، وہ جس نے اپنی خواہشوں اور چاہتوں کو ہماری خوشیوں کی خاطر قربان کردیا وہ جس نے اپنے دن کا سکون اور راتوں کی نیند ہماری خاطر قربان کردی اور مشقت کی چکی پیستے پیستے جس کے اعصاب جواب دے گئے، وہ ہستی جس کی ہر خوشی ہماری خوشی میں پنہاں رہی اور جو ہمار ے دکھوں کا مداوا کرتے کرتے کبھی بھی اپنے درد دل کو نوک زباں پر نہ لائے اور نہ ہی اپنے کرب کوچہرے سے عیاں ہونے دیا تاکہ کہیں ہم پریشان نہ ہوں۔ وہ جس کی ساری خوشیوں کا محور ہماری ذات رہی کیا ہم ان کو یاد کرنے کے لئے سال بھر میں ایک دن مختص کرنے میں حق بجانب ہیں۔ نہیں، نہیں اس عظیم ہستی کی یاد ہمہ وقت ہمارے دل میں زندہ رہنی چاہئے اور اگر ہم نے اقوام مغرب کی پیروی کرتے ہوئےیوم والد کے تصور کو پروان چڑھا دیا تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہماری اولاد ہمیں اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آئے گی۔
مجھے آج بھی وہ المناک دن یاد ہے جب 22 دسمبر1991کو طویل علالت کے بعد میری ماں جی اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو میرے والد نے ہی مجھے سینے سے لگا کر فرمایا تھا کہ’’پتر‘‘اج توں ہن میں ای تیری ماں تے باپ آں‘‘ اور پھر انہوں نے اپنے اس عہد کو جس خوبی سے نبھایا اسے بیان کرنے کے لئے واقعی میرے الفاظ ناکافی ہیں۔ دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے باوجود میرے والد کو اللہ کریم نے جس فہم و فراست سے نوازا ہے یہ انہی کی دانش کا نتیجہ ہے کہ مجھ جیسا ناچیز و حقیر انسان بفضل تعالیٰ ڈبل ایم اے کرکے بظاہر دنیاوی لحاظ سے ایک کامیاب شخص ہے۔ ماضی کے جھروکوں میں اگر جھانکوں تو یاد پڑتا ہے کہ والد صاحب تقسیم ہند کے بعد گورداسپور سے ہجرت کرکے راوی کے کنارے دو میل تک پھیلی لاشوں کے اوپر سے گزر کر پاکستان پہنچے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت وہ گبرو جوان تھے اور دریا کو تیر کر انہوں نے تین بار پار کیا تھا اور ہر بار کسی لاوارث اور لاغر کو ساتھ پکڑ کر خون کے بہتے دریا کے پار لگایا تھا اور ابھی ان میں مزید ایسا کرنے کی ہمت باقی تھی تو سکھ بلوائیوں نے دھاوا بول دیا اور مجبور مائوں سے ان کے لخت جگر چھین کر نیزوں کی نوک پر چڑھانا شروع کردئیے۔ آزادی کی اس کٹھن مسافت اور طویل داستان کو بیان کرتے ہوئے اکثر ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ ان واقعات کو سننے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اللہ کریم نے میرے والد گرامی کو جو اپنی رحمتوں سے خوب نوازا ہے یہ ان تین مجبورو مقہور آزادی کے مسافروں کی دعائوں کا نتیجہ ہے جنہیں انہوں نے دریا کے پار لگایا تھا۔ ماشاء اللہ90سال عمر ہونے کے باوجود بلا کا حافظہ رکھتے ہیں البتہ بینائی تلخ یاد ماضی کی وجہ سے راتوں کی تنہائی میں آنسو بہا بہاکر ماند پڑچکی ہے۔
پچھلے دنوں میں اپنی سرکاری نوکری میں ترقی کے بعد انہیںملنے اپنے گائوں ضلع سیالکوٹ گیا تو بڑے خوش ہوئے۔ فرمانے لگے ’’پتر میری زندگی دا سب توں وڈا خوشی دا دن اوسی جدوں تو بھرتی ہویاسی تے آج ماشاء اللہ ڈی ایس پی بن گیا ایں۔‘‘دیر تک ڈھیروں دعائوں سے نوازتے رہے جب میں نے انہیں بتایا کہ میرے اگلے مہینے وکالت کے فائنل امتحانات ہیں اور میری کامیابی کے لئے دعا فرمائیے تو یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بار بار دہراتے جاتے’’میرا پتراہن وکیل وی بن جائے گا‘‘ اور یہ کہتے ہوئے خوشی سے ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ پھر مجھ سے زیادہ دنوں کے وقفے کے بعد ملنے آنے کا گلہ فرمانے لگے تو میں نے جب کہا کہ بابا میری ترقی ہوگئی ہے اور اب میری تعیناتی گھر کےنزدیک ہوجائے گی تو پھر میں ہر ہفتے آپ کے پاس آیا کروں گا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ اس خوشگوار ، میٹھی ملاقات کے دوران میں ان سے ڈھیروں دعائیں سمیٹتا رہا اور پھر دوبارہ جلدی ملنے کا وعدہ کرکے رخصت چاہی تو میری پیشانی پر بوسہ لے کر فرمانے لگے ’’پتر میرے ہندیاں کدی وی گھبراویں ناں‘‘ اور مجھے لگا کہ میں اس وقت دنیا کا طاقتور ترین انسان بن گیا ہوں، البتہ اب قسمت کے ہاتھوں مجبور ہوں کہ بجائے انہیں جلدی ملنے کے اپنی تعیناتی دور ہونے کی وجہ سے اب ہر ہفتہ کی بجائے مہینہ بھر بعد ملاقات ہوگی لیکن بابا کی یاد صبح سویرے اٹھنے سے لے کر رات ہونے تک دل میں تازہ رہتی ہے اور ان کی دعائیں میرا حوصلہ بلند رکھتی ہیں۔ اللہ کریم انہیں شفا کاملہ عطا فرمائے اور ان کی شفقت کا سایہ سدا ہمارے سروں پر قائم رہے۔آمین
میرا یقین ہے کہ باپ اور بیٹے کی پرخلوص محبت کبھی بھی ایک دن تک محدود نہیں ہوسکتی لہٰذا میں مغرب کے فادرز ڈے"Father's Day"کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہوں۔ مغربی تہذیب کے تہوار مغرب کی کمرشل سوسائٹی کو مبارک۔ ہمیں ہر صورت’’مشرق‘‘ کے روحانی رشتوں کو زندہ رکھنا ہے۔ ہماری روایات کے مطابق زندگی بھر ہر لمحہ والدین سے تعلق قائم رہتا ہے اور ان کی دعایں مسائل کی سنگلاخ وادیوں میں راستے بناتی رہتی ہیں۔ موت کے بعد بھی ان کی دعائوں کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رہتا ہے۔ اس لئے ان رشتوں کو صرف ایک دن منا کر ان کے احسانات کا کفارہ ادا نہیں ہوسکتا۔
مخلص عبدالرزاق
موٹرے وے پولیس حیدر آباد ۔ سندھ