سانحہ بہاولپور۔حقائق کیا ہیں؟

June 29, 2017

سانحہ احمد پور شرقیہ کے لوگوں کا خیال آتا ہے تو بزم حیات کے جام لبوں سے چھوٹ جاتے ہیں اور یو ں لگتا ہے جیسے پہ درپے دل کے تار ٹوٹ جاتے ہیں۔کیفیت کچھ ایسی ہے کہ ہمت التجاہے نہ ضبط کا حوصلہ۔ المیے کا احساس ایسا شدید اور جان لیوا ہے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ اندازہ اس شعر سے لگالیں۔
کہہ دوں تو دل سے خون کا چشمہ ابل پڑے
اور چپ رہوں تو منہ سے کلیجہ نکل پڑے
عید سے ایک روز قبل احمد پور شرقیہ کے باسیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ 150افرادپر مشتمل پوری بستی کا ایک ہی دن جنازہ پڑھیں گے۔موت نے کیسے سب کو جمع کیا،بے شک قدرت ہر چیز پر قادر ہے۔ایک عینی شاہد نے واقعے کی تفصیل بتائی کہ صبح 5بج کر 23منٹ پر تیل سے بھرا ٹینکر سڑک کے کنارے الٹ گیا۔ٹینکر کے الٹتے ہی ہزاروں لیٹر تیل سڑک اور زرعی زمینوں میں پھیلنا شروع ہوگیا۔تیل کو آگ لگنے سے قبل چند منٹ پہلے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی۔جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ کسی کے ہاتھ میں بالٹی تھی تو کوئی کولر میں تیل جمع کررہا تھا۔ننھے بچے گھر کے برتنوں میں تیل ڈال ڈال کر اپنے گھروں کو لے جارہے تھے۔انہیں کیا معلوم تھا کہ یہی تیل ان کی موت کا سامان ہے۔بہاولپور کے وکٹوریہ اسپتال میں ایک زخمی شخص کی عیادت کے دوران پتہ چلا کہ وہ نزدیک کی بستی کا رہائشی نہیں ہے،بلکہ اسے اس کے دوست نے دس کلومیٹر دور سے تیل اکٹھا کرنے کا کہہ کر بلایا تھا۔صرف یہی نہیں بلکہ سڑک پر جانے والی کچھ گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں نے بھی لوگ کو جمع دیکھ کر تیل جمع کرنا شروع کردیا تھا۔عوام کی بڑی تعداد خطرے سے بے نیاز تیل جمع کرنے میں مصروف تھی کہ کسی نے سلگتا سگریٹ سڑک پر پھینک دیا۔سگریٹ کا پھینکنا تھا کہ چاروں طرف آگ لگ گئی۔آگ ایسی خوفناک اور شدید تھی کہ کسی کو سنبھلنے کا بھی وقت نہ مل سکا۔ایسی قیامت صغریٰ کبھی نہیں دیکھی۔
یہ خاکسار عید کی تعطیلات کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں ہی موجود تھا۔سانحے کا سنتے ہی دو گھنٹے کے اندر اندر بہاولپور پہنچ گیا۔مگر بہاولپور پہنچنے پر پتہ چلا کہ مظلوموں کی آہ پر لبیک کہنے والے خادم اعلیٰ بھی لاہور سے بہاولپور پہنچ چکے ہیں اور تمام انتظامات کی خود نگرانی کررہے ہیں۔شہباز شریف کو سیلاب کے دنوں میں تو جنوبی پنجاب کے عوام کی خدمت کرتے دیکھا تھا مگر یہ پہلی بار تھا کہ شدید گرمی اور روزے کے باوجود وزیرا علیٰ پنجاب زخمیوں کے مفت اور معیاری علاج کی خود نگرانی کررہے تھے۔میں نے انہیں زندگی میں کبھی اتنا بے چین نہیں دیکھا۔ ان کے چہرے سے اذیت عیاں تھی۔بار بار ملتان اور بہاولپور کے اسپتالوں کا دورہ کرکے بھی ان کو جب چین نہیں آیا تو بہاولپور ائیر پورٹ پہنچ گئے اور سی ایم ایچ بہاولپور کے جن زخمیوں کو سی ون تھرٹی کے ذریعے لاہور منتقل کیا جارہا تھاوہ بھی ریسکیو اہلکاروں کے ہمراہ منتقلی کے عمل میں معاونت کرنے لگے۔کسی کا صبر نہیںسمیٹنا چائیے،وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق،چیف سیکریٹر ی پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید، سیکریٹری ٹو وزیراعلی امداد اللہ بوثال،احمد جاوید قاضی، سیکریٹری صحت نجم شاہ سمیت ہر شخص اپنی ہمت اور استطاعت سے بڑھ کر کام کررہا تھا۔ملتان پہنچنے پر جہاز میںاسٹاف افسر نے کہاکہ صبح عید ہے اور سیکورٹی صورتحال مناسب نہیں ہے۔اس لئے ملتان سے واپس لاہور جانا چاہئے۔شہباز شریف تمام مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’میرے غریب بہن بھائی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوں اور میں انہیں تنہا چھوڑ کر لاہور میں عید مناؤں،ایسا ممکن ہی نہیں ہے‘‘۔ وزیراعظم سے لے کر آرمی چیف تک شہباز شریف نے ہر شخص سے ذاتی طور پر بات کی اورزخمیوں کو تمام سہو لتیں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔لندن میں اپنی مصروفیات ترک کرکے بہاولپورپہنچنے والے نوازشریف کی آمد نے بھی لوگوں کے حوصلے بہت بلند کئے۔مفت تعلیم،سرکاری نوکری،20لاکھ روپے کیش کے اعلان سے لوگوں کے پیارے واپس تو نہیں آسکتے،لیکن حکومتی اقدام سے لواحقین کا حوصلہ ضرور بڑھا ہوگا۔حکومتی امداد زندگی کا نعم البدل تو نہیں ہوسکتی مگر آزمائش کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ضرور ادا کرسکتی ہے۔
سانحہ بہاولپور کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں نے روایتی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کی۔جو بہت تکلیف دہ بات ہے۔پنجاب میں برن یونٹ پر عوام کو بھاشن دینے والے بتائیں گے کہ گزشتہ چار سالوں میں خیبر پختونخوا اور سندھ میں کتنے برن یونٹ بنائے گئے ہیں۔
قارئین کی معلومات کے لئے عرض کرتا چلوں کے جس مقام پر یہ سانحہ رونما ہوا ہے،وہاں سے ٹھیک 100کلومیٹر کے فاصلے پر ایشیاکا جدید ترین برن یونٹ ملتان میں موجود ہے۔جس کی آرمی چیف سمیت تمام اداروں نے تعریف کی ہے۔ریکارڈ کی درستگی کےلئے عرض کرتا چلوں کہ وہ برن یونٹ بھی شہباز شریف کے حالیہ دور میں تعمیر ہوا ہے۔اس کے علاوہ جناح اسپتال میں 74،نشتر اسپتال میں72،الائیڈ اسپتال میں 55،میو اسپتال میں 8،شیخ زائد رحیم یار خان میں24،سروسز اسپتال 30،جنرل اسپتال 20،چلڈرن اسپتال24اور ہولی فیملی پنڈی میں 20بیڈز پر مشتمل خصوصی برن یونٹ موجود ہیں۔جو اسٹیج 2اور3کے مریضوں کا علاج کرسکتے ہیں۔باقی یاد رکھنا چاہئے کہ برن کا ایسا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔عام روٹین میں تو 80فیصد سے زائد جھلسے ہوئے کا علاج بھی ممکن نہیں ہوتا اور یہاں 150ایسے زخمی ہیں جو80فیصد سے زائد جھلسے ہوئے ہیں اور ان کا علاج کیا جارہا ہے۔ معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ بہاولپور وکٹوریہ اسپتال سمیت پنجاب کے تمام بڑے اسپتالوں میں جھلسے ہوئے مریضوں کے علاج کی سہولت موجود ہے۔لیکن اگر کوئی مریض 50فیصد سے زائد جھلس جائے تو اس کا علاج خصوصی طور پر بنائے گئے برن یونٹ میں کیا جاتا ہے۔ہر اسپتال میں جدید برن یونٹ بنانا ممکن نہیں ہوتا۔صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی برن یونٹ ہر اسپتال کا حصہ نہیں ہوتا۔کیونکہ ا سٹیج ون کے تمام مریضوں کو جنرل سرجن آپریٹ کرسکتا ہے۔جس کی سہولت ہر ٹیچنگ اسپتال میں موجود ہے۔بہاولپور سانحے میں زخمی ہونے والے 90فیصد مریض ایسے ہیں جو 80فیصد سے زائد جھلس گئے ہیں۔اللہ تمام زخمیوں کو جلد صحت یاب کرے،لیکن 50فیصد سے زائد جھلسنے والے کے بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔اب تک ایک بھی ایسا مریض سامنے نہیں آیا،جو 50فیصد سے زائد جھلسا ہو اور علاج میں غفلت یا برن یونٹ نہ پہنچنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا ہوں۔حکومت پر تنقید کرنی چاہئے لیکن جائز۔تنقید برائے تنقید مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئے۔کسی کاصبر سمیٹنا مناسب نہیں ہوتا۔ قدرتی آفت اور آزمائشی صورتحال کو کبھی بھی چیلنج نہیں کرنا چاہئے۔بہتر اقدامات کرکے ایسی آفت کے نقصان کو صرف کم کیا جاسکتا ہے۔ جب معاشروں میں غربت اورناخواندگی بڑھ جائے تو پھر ایسے ہی سانحے رونما ہوتے ہیں۔

.