پاناما کیس ، ن لیگ کو ملین ڈالر ٹپ

July 11, 2017

پاناما کیس کا فیصلہ، احتساب کی زد میں آئے حکمران خاندان کے حق میں آئے یا خلاف، قوم کے لئے صراط مستقیم یہی ہے کہ آئین کی پیروی میں سب اسےتسلیم کریں۔ جاری عدالتی کارروائی کے اس حساس مرحلے میں شدت سے مطلوب ہے کہ سپریم کورٹ کو کسی بھی قسم کی مداخلت اور دبائو سے آزاد رکھا جائے۔ اسکی غیر جانبداری پر اعتماد کیا جائے جو کیس کے عبوری فیصلے میں 3:2کی سپلٹ سےپہلے ہی ثابت ہو چکی ہے، جہاںتک آئین و قانون کی روشنی میں فیصلے کے لئے آزاد فضا کی ضرورت ہے، وہ جج صاحبان کی ثابت شدہ غیر جانبداری، عدلیہ کے لئے قوم کے مجموعی حوصلہ افزا رویے اور خود جج صاحبان کےپروفیشنل کیلےبر کے باعث مطلوب فری کوئنسی پر موجود ہے لیکن جے آئی ٹی کے تفتیشی عمل کے دوران ن لیگی آلودہ سیاسی ابلاغ سے اسے ڈسٹرب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جج صاحبان اور جے آئی ٹی کے ارکان نے اسے سہتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ آزادی متاثر نہ بھی ہونے دی۔ تبھی ملکی مجموعی فضا میں تشویش کا سامان تو پیدا ہورہا ہے کہ حکمران جماعت ہی حکمران خاندان کے ہر حالت میں تحفظ کے لئے آئین و قانون کے دائرے سے نکلنے پر اعلانیہ آمادہ ہے۔
یہ کہاوت کافی حد تک درست تو ہے کہ ’’تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھتا ‘‘لیکن یہ مکمل درست بھی نہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تو یہ غالب حد تک درست ہی ہے، لیکن جمہوری معاشروں میں حکومتیں، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور باشعور شہری تاریخ سے کئی سبق سیکھ کر اپنے معاشروں کے نحیف جمہوری عمل کو ارتقائی کیفیت میں تبدیل کرتے ہیں، وگرنہ تو بیمار نظام پر جمود ہی طاری رہے اور یہ پاکستان کے موجودہ اسٹیٹس کو کی شکل میں ہی جامد ہو جائے۔ ن لیگی حکومتی وزراء جے آئی ٹی کی آڑ میں سپریم کورٹ کے خلاف جو جارحانہ اور دھمکی آمیز یومیہ ابلاغ کررہے ہیں وہ ن لیگ کی عدالتی عمل کے خلاف داغدار تاریخ دہرانے کے مترادف ہے اس کے باوجود عدلیہ کی ارتقائی کیفیت اور بار بار اقتدار میں آنے والے طاقتور حکمرانوں کے احتساب کی بھرپور عوامی تائید نے شریف خاندان کو جے آئی ٹی سے تعاون پر مجبور کردیا کہ انہیں سپریم کورٹ کی معاون ٹیم کی طلبی پر اس کے روبرو پیش ہونا پڑا۔ یہ پاکستان میں ’’تمام شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ‘‘ کے حوالے سے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے سیاسی و جمہوری عمل میں ایک بڑی اہم پیش رفت ہے جسے سبوتاژ کرنے کے لئے حکومت، حکومتی جماعت اور حکمران خاندان کھل کر جے آئی ٹی کی آڑ میں سپریم کورٹ پر مسلسل ابلاغی حملے کررہے ہیں۔ چار وفاقی وزراء نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفت میں آئی، جے آئی ٹی کی رپورٹ (اصل میں فیصلہ) نہ ماننے کی جس دھڑلے سے دھمکی دی ہے، وہ آئین سے بغاوت کے مترادف ہے۔
ایسے میں پیپلز پارٹی کی حکومت (2008-13) اپنی تمام تر کرپشن اور بیڈگورننس کے باوجود، عدالتوں اور ان کے احترام میں قابل ستائش کردار کی حامل ثابت ہوئی۔ وزیراعظم گیلانی عدالتی حکم پر سرتسلیم خم کرتے وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر جا بیٹھے۔امر واقعہ یہ ہے کہ اس حوالے سے پی پی اور ن لیگ کے رویے میں گہرا تضاد ہے۔ یہاں پی پی واقعی ایک جمہوری قوت اور آئین کی علمبردار اورن لیگ اسٹیٹس کو کی انتہائی منفی قوت ثابت ہوئی۔ جبکہ خود حکمران شریف برادران مانتے ہیں کہ ملک کا نظام گلا سڑا، غیر منصفانہ ہے جس میں گھپلے ہی گھپلے ہیں۔
’’آئین نو‘‘ میں مسلسل باور کرایا جارہا ہے کہ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں احتساب کا مطلوب عمل کوئی پاناما کا نیوز بم پھٹنے سےہی شروع نہیں ہوا بلکہ اس کا آغاز تو سپریم کورٹ کے فیصلے سے گیلانی وزارت ختم ہونےسے ہوا، جب عدالت عظمیٰ نے آئین کی دفعہ (3) 184کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے آنے والے حکمرانوں پر واضح کردیاکہ خلاف آئین اقدام پر عدلیہ انہیں نااہل قرار دے سکتی ہے۔ پی پی، عوام اور کسی نے بھی اس پر کوئی ہنگامہ یا اعتراض نہ کیا تو اس سے وزارت عظمیٰ کی سطح پر احتساب بذریعہ عدلیہ کا دروازہ کھل گیا۔ آج وزیراعظم اور ان کا خاندان بھی ایسے ہی احتسابی عمل سے دوچار ہیں۔ پہلے آمرانہ ادوار حتیٰ کہ سول میں بھی عدلیہ کا وزیراعظم کو سبکدوش کرنے کے اختیار صدر مملکت کے پاس تھا، جو اب فقط عدلیہ کے ہی پاس ہے جس پر عملدرآمد بھی ہوچکا۔ سپریم کورٹ کا یہی اختیار ’’سب شہریوں پر قانون کے یکساں اطلاق‘‘ کو ممکن بناتا ہے جو فراہمی انصاف کیلئے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کا سنہری قانون ہے۔ پاناما کیس کے حوالے سے ہی دو سینئر جج صاحبان قرار دے چکے ہیں کہ وزیراعظم ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ نہیں رہے، لیکن جے آئی ٹی تو جے آئی ٹی حکومتی حلقے سپریم کورٹ کے زیر بحث آئینی اختیار کوبھی متنازع بنانے کے در پے ہیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کا تقاضا ہے کہ ریاستی نظام میں کوئی ایک ادارہ (حتمی اتھارٹی) ہو، جو قانون کی تشریح اور نفاذ میں حتمی اختیار کا حامل ہو، پاکستان میں یہ رائج الوقت آئین و قانون کے مطابق سپریم کورٹ ہی ہے۔ اسی کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
مسلم لیگ ن جو پاناما کیس میں اصل ملزم حکمران خاندان کو پیچھے کر کے سیاسی زور سے خود فریق بن رہی ہے پر واضح ہونا چاہئے اور زیر احتساب شریف خاندان پر بھی کہ پاناما کیس کے فیصلے کی بنیاد مکمل قانونی اور آئینی جواز لئے ہوگی۔ یہ کوئی عام کیس نہیں ہے، منتخب اور تیسری مرتبہ بننے والے وزیراعظم منتخب اکثریتی جماعت کے سربراہ اور ان کے اہل خانہ پر الزامات ہیں، ان کے خلاف فیصلہ ’’سازش‘‘ ’’مداخلت‘‘ یا کسی قانونی جھول کے ساتھ دینا ممکن ہی نہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت اس کیس کا قانونی بنیاد پر پوسٹ مارٹم پاکستان میں بڑے بڑے آئینی و قانونی ماہرین مکمل انہماک سے کریں گے ہی، یہ اس نوعیت کا کیس ہے کہ انسداد کرپشن اقوام متحدہ کا ایجنڈا بننے کے باعث بین الاقوامی سطح پر بھی قانونی حلقے اس کا تیا پانچا کریں گے۔ سو، ن لیگ صبر کرے، کیس کو اتنے جارحانہ انداز میں مکمل سیاسی رنگ دے کر اپنی سیاست کونقصان نہ پہنچائے۔ اگر اس حوالے سے اپنی سیاست ہی کرنی ہے تو متحارب سیاسی قوتوں کی خلاف آئین و قانون روش کو آشکار کرے اور عدلیہ سے رجوع کر کے تنہا کرپٹ ہونے کی راہ خود ہی نہ ہموار کرے بلکہ اپنی اختیار کی گئی ابلاغی جارحیت کا رخ اس سمت کی طرف موڑے۔ ہمارے جیسے(اگر فیصلہ خلاف آئے) اور بھی ہیں۔ ہے ناں ملین ڈالر ٹپ۔