وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ...

July 13, 2017

پاک امریکہ تعلقات کی گزشتہ سات دہائیوں سے بڑی اہمیت چلی آرہی ہے یہ اگرچہ کبھی گرم اور کبھی سرد رہے ہیں لیکن بے اعتنائی و لاتعلقی کی نوبت کم ہی آئی ہے۔ اس حوالے سے بانی ٔپاکستان کے خیالات قطعی واضح ہیں جو امریکہ کی جمہوری پہچان اور عالمی حیثیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو اگرچہ روس کی طرف سے دورے کی دعوت مل چکی تھی مگر حکومتی ذمہ داران نے تگ و دو کرتے ہوئے انہی دنوں امریکہ سے ایسی دعوت اپنی خواہش پر حاصل کی یوں یہ واضح ہوا کہ پاکستان روس پر امریکہ کو ترجیح دے گا اور اس عظیم جمہوریت کے ساتھ مل کر اپنا عالمی کردار ادا کر ے گا۔ اس کے بعد جہاں بہت سے مواقع پر اگر پاک امریکہ ایک دوسرے کی امیدوں یا تمناؤں پر پورے اترے وہیں ایسی مثالوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا جہاں ہر دو ممالک کو ایک دوسرے سے شکایات بھی پیدا ہوئیں۔ دیکھا جائے تو پاک امریکہ تعلقات اکثر ایک دوسرے سے نالاں و دلبرداشتہ روایتی عاشق و معشوق جیسے ہی رہے ہیں جن کے گلے شکوے ختم ہوتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کی جان چھوڑتے ہیں..... پاکستان میں عوامی سطح پر کئی بار یہ تاثر دیا جا تا رہا کہ امریکہ پاکستان کا مفادپرست دوست ہے جب مطلب ہوتا ہے ہمیں سر آنکھوں پر بٹھا لیتا ہے امداد یا گرانٹس کی کھیپ پر کھیپ بھیجنا شروع کر دیتا ہے اور جب مفاد یا مطلب نکل جاتا ہے تب آنکھیں پھیرتے ہوئے بھی دیر نہیں لگاتا، اس سلسلے میں مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے سے پہلے مدد کے لئے آنے والے ساتویں بحری بیڑے کی مثال دی جاتی ہے جس نے آنا تھا نہ آیا۔ یوں ہماری کیفیت یہ تھی کہ ؎
تیرے وعدے پر جیے ہم تو یہ جاں جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
لیکن دوسری طرف بھی کچھ اسی نوعیت کے شبہات تھے کہ اگر ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں۔ کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے، بات کہنے کی نہیں توُ بھی تو ہر جائی ہے کسی وقت اگر ہم نے امریکہ چین تعلقات میں تعمیری رول ادا کرتے ہوئے صدر نکسن کے دورہ چین کی راہ ہموار کی تھی تو آج وقت نے ہمیں اُسی چین کی گود میں بٹھا دیا ہے۔ جبکہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کا قریب ترین اتحادی آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اس قدر قریب جا چکا ہے کہ جہاں ہم اپنے لئے اجنبیت ہی نہیں حسدبھی محسوس کرنے لگے ہیں حالانکہ فی زمانہ ایسے ہونا نہیں چاہئے عصرِ حاضر میں اقوام عالم کے باہمی تعلقات جہاں منافرتوں سے بلند ہو رہے ہیں وہیں اقوام کے باہمی دو طرفہ مفادات کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایک طرف جہاں اسرائیل کو اپنا قریب ترین دوست رکھتا ہے وہیں فلسطینیوں کو سب سے زیادہ امداد دینے والے بڑے ملک کی پہچان کا حامل بھی ہے۔
آج امریکیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہمارے رول پر سنجیدہ اعتراضات ہیں۔ ایک طرف جہاں وہ خطے میں ہماری اسٹریٹیجکل پوزیشن اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں وہیں اُن کا ہم سے ہمیشہ یہ تقاضا بھی رہتا ہے کہ ہم بشمول بھارت اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنائیں بالخصوص افغانستان کی حکومتوں کو ہم سے جو شکایات رہتی ہیں اُن کا مل بیٹھ کر کوئی حل نکلنا چاہئے۔ افغان فورسز پر دہشت گردی کے جو حملے ہوتے ہیں امریکہ وہ افغانوں پر نہیں خود اپنے اوپر حملے خیال کرتا ہے اور کسی بھی قیمت پر اُن کا خاتمہ چاہتا ہے ۔
جان مکین کی قیادت میں5امریکی سینیٹرزنے ان دنوں ہر دو ممالک کا جو دورہ کیا ہے اُسے اسی تناظر میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس میں ڈاکٹر آفریدی کا معاملہ بھی ضرور زیر بحث آیا ہوگا..... امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سینیٹ کی جو اہمیت ہے وہ ہم سب پر واضح ہے انہوں نے ٹرمپ مودی ملاقات کے حوالے سے پیدا ہونے والی بعض بدگمانیوں یا غلط فہمیوں کی وضاحت ہی نہیں کی ہے بلکہ امریکہ کی کشمیر پالیسی بھی واضح کی ہے۔ آزادی یا عوامی حقوق کی جدوجہد کس حد تک رہے تو حقوق کی جنگ کہلاتی ہے اور کس حد کو پار کر جا ئے تو دہشت گردی میں ڈھل جاتی ہے اس کا ادراک ہمارے دفترِ خارجہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ دونوں کو لازماً ہونا چاہئے۔ آج انڈیا نے اگر امریکہ سے صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دلوایا ہے یا وہ لشکرِ طیبہ اور حماس کو ایک پلڑے میں رکھتے ہوئے ایک سکے کے دو رخ منوا رہے ہیں تو یقیناً یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی اور انڈین دفتر ِ خارجہ کی کامیابی ہے۔ اس پر جذباتیت دکھاتے ہوئے منہ سے خواہ مخواہ جھاگ نکالنا امر لاحاصل ہے۔عالمی امور میں ہمیں جہاں بہتر سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا چاہئے وہیں اپنی قومی پالیسیوں میں بھی عالمی تقاضوں کے مطابق تطہیر کا عمل جاری و ساری رکھنا پڑے گا۔ اگرچہ ہمارے دفترِ خارجہ نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان سے نہیں، افغانستان سے چلایا جا رہا ہے نیز یہ کہ امریکی سینیٹرزنے پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کاوشوں کو سراہا تھا اور یہ کہ افغانستان کا استحکام پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ دوسری طرف کابل پہنچتے ہی امریکی سینیٹرزنے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ وہ دہشت گردی بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خاتمے میں پاکستان کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جان مکین کے الفاظ ہیں کہ’’ اگر پاکستان نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو شاید بحیثیت قوم ہم امریکی پاکستان کی جانب اپنا رویہ تبدیل کر لیں۔‘‘ یہ بہت بڑی تنبیہ ہے جس کے مضمرات کا ہمیں احساس و ادراک ہونا چاہئے۔ خرابیوں کو شروع میں درست کر لینا بہتر ہوتا ہے ورنہ عدم اعتماد بڑھتے ہوئے اس سطح پر چلے جاتا ہے جہاں خواہش کے باوجود بہتری لانا مشکل ہو جاتا ہے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ہماری تمام تر وضاحتوں کے باوجود دوسری طرف تسلی ہوئی ہے نہ اعتماد میں بہتری آئی ہے البتہ ایک چیز جس پر ایکا ہوا ہے اُسے افغان صدر جناب اشرف غنی نے بھی قبول فرمایا ہے یہ کہ امریکہ کی زیرنگرانی سرحدی علاقوں میں پاکستان کیساتھ انسدادِ دہشت گردی کے مشترکہ آپریشنزمیں شمولیت اور یہی کار آمد فیصلہ ہے جس پر اگر شرح صدر کے ساتھ عمل درآمد ہوتا ہے تو بہتری اور کامیابی کی کرنیں پھوٹ سکتی ہیں۔ ہمارے خیال میں افغانستان کو اس تمام تر کاوش کے باوجود ہنوز پاکستان کی ضرورت رہے گی اور ہمارے نقطہ نظر سے یہ رہنی بھی چاہئے ۔ ہمارے افغان بھائیوں کو بھی ہمیں دشمن نہیں دوست سمجھنا چاہئے۔اگر افغانستان کے حوالے سے ہمارے مخصوص حلقوں یا ایجنسیوں میں یہ سوچ غالب رہے گی کہ افغانستان کے اندر سے بھارت نوازی کا عنصر ختم کرواتے ہوئے وہاں پاکستان نواز حکومت برسراقتدار لائی جائے تو افغانستان سے ہماری دوستی تو دور کی بات ہے خطے میں امن بھی ایک خواب ہی رہے گا لیکن اگر ہم اپنے بھائیوں کو اتنا احترام دیں کہ وہ جو بھی سوچ رکھتے ہیں اس سب کیساتھ بس وہ ہمارے بھائی ہیں امریکہ اور بھارت کی طرح ہماری تمنا بھی افغانستان میں امن و سلامتی اور تعمیر و ترقی ہے تو ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے پھر نہ طورخم اور چمن بارڈر بند ہو گا نہ واہگہ و اٹاری پر ایسی پابندیاں رہیں گی پھر انڈیا کو راہداری دینے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ دہشت گردی و انتہا پسندی کی چوٹوں اور زخموں نے آج ہمیں اس مقام تک پہنچا دیاہے جہاں سے امن اور دوستی کی پالیسی زیادہ دور نہیں ہے۔