مسیحائوں کا احتجاج اور عوام کی مشکلات

August 03, 2017

ڈاکٹرکو انسانیت کیلئےمسیحا تصور کیا جا تا ہے ،مگر جب یہی مسیحا ہڑتالیں اور مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کرتاہے تو دکھی انسانیت مزید دکھی ہوجاتی ہے۔منگل کے روز پنجاب بھر سے آئے ینگ ڈاکٹرز نے لاہور میں اپنے مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کیا اور وزیر اعلیٰ ہائوس کی طرف مارچ کی کوشش کی۔جسے روکنے کیلئے پولیس نے تیز دھار واٹر کینن اور آنسو گیس شیلنگ کا استعمال کیا۔7ڈاکٹروں کو گرفتار بھی کیا گیا جو بعد میں رہا ہو گئے۔ احتجاج کے دوران پنجاب کے 30سرکاری اسپتالوں میںاو پی ڈی، اِن ڈور اور ایمرجنسی بند رہی۔ جس کے باعث معمول کے چیک اپ کیلئے آنیوالے 50ہزار اور ایمر جنسی نوعیت کے 80ہزار مریض دربدر ہوتے رہے۔بد ترین ٹریفک جام کی وجہ سے ایک مریضہ بر وقت اسپتال نہ پہنچائے جانے کے باعث سڑک پر ہی دم توڑ گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء سے اب تک 27مریض ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں آئے روز ایسے احتجاج ہوتے رہتے ہیں جس میں سب سے زیادہ نقصان تیسرے فریق(مریض) کا ہوتا ہے۔ بدھ کو فیصل آباد میں بھی ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے سبب 4مریض دم توڑ گئے۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور حکومت کی اِس کشا کش میں مریض کا کیا قصور ہے؟ ڈاکٹروں کا حلف کہاں ہے جو وہ دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے اُٹھاتے ہیں؟اپنے مطالبات منوانے کیلئے سڑکوں پر نکلنااورمار دھاڑ کرنامہذب اقوام کا شیوہ ہے نہ ہی شعبہ طب کے ضابطہ اخلاق کے مطابق ۔حکومت کو بھی عوام کا خیال نہیں ہے اور اِس تمام صورتحال پر میں نہ مانوں کی ضد لگائے خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ ینگ ڈاکٹرز کے جائز مطالبات افہام وتفہیم سے تسلیم کرلیے جائیں اور اسپتالوں میں ادویات، سرجری آلات اور بستروں سمیت ضروری طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ فریقین کے درمیان جاری مطالبات کی جنگ سے غریب عوام متاثر نہ ہو سکیں۔