سپریم کورٹ کے جج کیخلاف ریفرنس فائل کرنا غیر مناسب ہوگا،ماہرقانون

August 20, 2017

کراچی (ٹی وی رپورٹ) ایک ایسے ادارے کی طرف سے جو دستوری ادارہ ہے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس فائل کرنا غیر مناسب ہوگا ،اگرایک سیاسی حریف دوسرے کسی ادارے کو اپنے جاگیر کی طرح استعمال کرنے کا تاثر دے اور ان کے ساتھ کھڑا ہو ان کو سیاسی طو رپر استعمال کرے تو خود بخود ہی لہجے میں کڑواہٹ بھی آئے گی اور لڑائی بھی بڑھے گی ،اس چیز کو ختم ہونا چاہئے ۔

پہلے یہ اختیار صرف حکومت کے پاس تھا کہ صدر مملکت ہی ریفرنس داخل کرسکتے تھے اگر کسی بھی جج کے خلاف جوڈیشل مس کنڈیکٹ کی شکایت ہوتی تھی جس میں 2009 میں سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز کو تبدیل کیا گیا تھااور اس میں سٹیزن کا لفظ بھی ڈالا گیا تھا ۔ایک ایسے ادارے کی طرف سے جو دستوری ادارہ ہے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس فائل کرنا غیر مناسب ہوگا۔ اداروں کے درمیان توازن کے لئے ڈالی گئی چیزوں کو اگر ہم بطور انتقامی کارروائی کے استعمال کرنا شروع کردیں تو پھر یہ ٹکرائو شخصیات کے درمیان ہوگا ۔

ن لیگ میں پھوٹ اور شریف فیملی میں اختلافات کی خبرو ںمیں کوئی صداقت نہیں۔ یہ کہنا تھا جیو کے پروگرام’’ نیا پاکستان‘‘ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکٹر جیو نیوز اسلام آباد رانا جواد ، نمائندہ جیو نیوز اسلام آباد عبدالقیوم صدیقی ، تجزیہ کار مشرف زیدی اور ماہر قانون کامران مرتضیٰ کا جو اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی خبروں اور اس کی ترجمان قومی اسمبلی کی جانب سے تردید پر گفتگو کررہے تھے ۔

رانا جواد ڈائریکٹر جیو نیوز اسلام آباد کا اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی خبروں پر پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس حد تک تو یہ خبر بے بنیاد ہے کہ ریفرنس فائل ہوگیا ہے لیکن اس خبر کی بنیاد ہے اور ترجمان قومی اسمبلی کی طرف سے اسی حوالے سے کہا گیا ہے کہ کوئی ریفرنس فائل نہیں کیا گیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مبالغہ آمیزی سے کام نہ لیا جائے یہ نہیں لکھا گیا کہ ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے اس میں تین چیزیں ہیں کہ ریفرنس ہوسکتا ہے جو کہ جسٹس کھوسہ کے خلاف جاسکتا ہے دوسرا ایک لیٹر ہوسکتا ہے چیف جسٹس کو جس میں پوائنٹ آئوٹ کیا جاسکتا ہے ایک آئینی ادارے کو کمزور کیا گیا ہے ، تیسرا یہ کہ سپریم کورٹ کو کہا جائے کہ ان ریمارکس کو حذف کیا جائے ۔تینوں امکانات موجود ہیں۔میں ا س کے حق میں نہیں کیونکہ ایسا کوئی بھی ریفرنس اداروں کے درمیان ٹکرائو کا باعث بن سکتا ہے ، ا نکا کہنا تھا کہ صبح سے یہ سلسلہ چل رہا ہے بہتر ہوتا کہ ایاز صادق سے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے تصدیق کی جاتی اس کے بجائے یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ دیکھیں جسٹس آصف سعید کھوسہ کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ادارے کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ جسٹس کھوسہ کو طلب کرے ، پیپر طلب کرے اس کے پاس جو شکایت آتی ہے وہ متعلقہ ادارے کو بھجوادیتا ہے میرا خیال ہے کہ ایک اسپیکر کے آفس کی تذلیل کا پہلو یا اس کی غیر جانبداری پر سوال اٹھانا اتنی آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا اداروں کا احترام دونوں طرف ہونا چاہئے ۔ طلعت حسین کے سوال کہ 20 اپریل کو یہ ریمارکس آئے تھے اور اب پانچ ماہ بعد خیال آرہا ہے کہ بڑی تذلیل ہوگئی ہے پر رانا جواد کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں میری جون میں اسپیکر ایاز صادق سے ملاقات ہوئی تھی تو اس وقت اس ریمارکس کے حوالے سے غو رہورہا تھا کہ کیا کیا جائے لیکن کوئی فیصلہ ہو نہیں پارہا تھا ۔جب سیاسی لڑائی ہوتی ہے اس کے اندر اگرایک سیاسی حریف دوسرے کسی ادارے کو اپنے جاگیر کی طرح استعمال کرنے کا تاثر دے اور ان کے ساتھ کھڑا ہو ان کو سیاسی طو رپر استعمال کرے تو خود بخود ہی لہجے میں کڑواہٹ بھی آئے گی اور لڑائی بھی بڑھے گی یہ بہت ضروری ہے کہ اس طرح کا کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ کی ناں ہی کوئی آنر شپ لے اور ناں ہی اس طرح کی طرفداری کرے کہ جی پوری قوم آپ کے لئے باہرنکل آئے گی یہ کیا فکریں ہیں آپ سیاسی مقابلہ کررہے ہیں ۔اگر یہ سمجھا جائے کہ اداروں کے درمیان اس لئے ٹکرائو پیدا ہوگا کہ کوئی آدمی اپنی عزت کے لئے کھڑا ہو تو یہ غلط ہے یہ ٹکرائو اس وقت ہوتا ہے جب ایک غیر متعلقہ آدمی اداروں کے حوالے سے اور سیاسی حریف اس کو میدان جنگ میں اپنے اپنے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں اس چیز کو ختم ہونا چاہئے ۔

نمائندہ جیو نیوز اسلام آباد عبدالقیوم صدیقی کا پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اس حوالے سے کہنا تھا کہ اگر کسی ادارے کو کوئی شکایت ہے آئین کا آرٹیکل209 کہتا ہے کہ اگر کسی ادارے سے کوئی شکایت ہے کسی جج کے رویہ کے حوالے سے کوئی شکایت ہے تو اس کو حل کرنے او رسننے کا ایک ادارہ موجود ہے او روہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہے ،پہلے یہ اختیار صرف حکومت کے پاس تھا کہ صدر مملکت ہی ریفرنس داخل کرسکتے تھے اگر کسی بھی جج کے خلاف جوڈیشل مس کنڈیکٹ کی شکایت ہوتی تھی جس میں 2009 میں سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز کو تبدیل کیا گیا تھااور اس میں سٹیزن کا لفظ بھی ڈالا گیا تھا اور دوسرا یہ کہ سپریم جوڈیشل کونسل جو ہے اس کو یہ بھی اختیار دیدیا گیا کہ وہ از خود بھی کارروائی کرسکتی ہے ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے حوالے سے 207 سے زائد ایسی شکایات سپریم جوڈیشل کونسل میں پینڈنگ ہیں ، سپریم جوڈیشل کونسل نے پانچ ہائیکورٹ کے ججز جن میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اکبر کاسی ، جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی نقوی ، جسٹس فرخ عرفان جن کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ ان کا نام بھی پاناما پیپرز میں ہے سمیت ایک سندھ ہائیکورٹ کے جج بھی شامل ہیں ان کے خلاف از خود کارروائی کی ہے ۔

ماہر قانون اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کامران مرتضیٰ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ریفرنس فائل ہوسکتا ہے کیونکہ پہلے یہ ا ختیار صرف گورنمنٹ کے پاس تھا لیکن اب یہ حق سب کو دیدیا گیا ہے لیکن ایک ایسے ادارے کی طرف سے جو دستوری ادارہ ہے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس فائل کرنا غیر مناسب ہوگا ۔اس میں دیگر آپشنز ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک درخواست آسکتی ہے کہ جی مجھے تو سنا نہیں گیا ہے تو پھر یہ میرے خلاف ریمارکس کس طرح سے آگئے ان کو حذف کیا جائے یا پھر ریویو کے لئے بھی آسکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دوسرے آپشنز زیادہ بہتر ہیں ۔ یہ ایک فیصلہ تھا جس میں ان کے خلاف ایک رائے آئی ہے لیکن میرے خیال میں یہ کوئی ایسے ریمارکس نہیں کہے جاسکتے کہ جس کو بنیاد بنا کر ریفرنس فائل کیا جاسکے۔اس معاملے میں اگرزیادہ گھسنے کی کوشش کی گئی تو ہمارا جوڈیشل سسٹم بھی خرابی کی طرف چلا جائے گا اس لئے اس حوالے سے بعض باتو ں میں ہمیں احتیاط برتنا ہوگی اس کو زیادہ کریدنا بہتر نہ ہوگا ۔

جمہوریت میں ہم جتنا بڑا نقصان کرچکے ہیں اگر اسپیکر کی طرف سے کوئی ریفرنس آگیا تو یہ اس سے بھی بڑا نقصان ہوجائے گا ۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اب لڑائی کو کسی اور طرف لے جایا جارہا ہے ۔

بہتر یہ ہوگا کہ اس معاملے میں رک جایا جائے ۔تجزیہ کار مشرف زیدی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ اداروں کے درمیان توازن کے لئے ڈالی گئی چیزوں کو اگر ہم بطور انتقامی کارروائی کے استعمال کرنا شروع کردیں تو پھر یہ ٹکرائو شخصیات کے درمیان ہوگا او راس حوالے سے جو تنقید کررہے ہیں ان کو لگتا ہے کہ یہ براہ راست جسٹس آصف سعید کھوسہ پر حملہ ہے اور یہ اداروں کی تذلیل میں شمار ہوتا ہے لیکن اگراس کو دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو2009 میں نعیم بخاری نے اس وقت کے صدر مشرف کو خط لکھا تھا جہاں سے ساری بات شروع ہوئی تھی یعنی اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نکالنے کی اور پھر ان کی بحالی کی دو سالہ کاوش جس میں ن لیگ سرفہرست سیاسی جماعت تھی تو اس شق کی رو سے یہ حملہ تصور نہیں کیا جاسکتا ۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ آپ نے وزیراعظم کو تو برطرف کردیا او راچھا کیا لیکن اب آپ کی ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ اب آپ اسی شق کے تحت دیگر اداروں کی طرف بھی دیکھیں اور اگر کوئی یہ کہتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ن لیگ میں اندرونی اختلافات کی خبروں اور شہباز شریف کی جانب سے اداروں کے حوالے سے بات نہ کرنے کی پابندی پر بات کرتے ہوئے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اداروں کے حوالے سے کوئی بات نہ کرنے کا وزیراعلیٰ پنجاب کا بالکل حکم آیا ہے لیکن اس بات کو پارٹی پالیسی کے طو رپر بہت تاخیر سے اپنایا جارہا ہے جس کی وجہ وہ ڈسکشن ہے جو طویل عرصے سے اس حوالے سے جاری تھی ۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ادارہ جس میں سیکڑوں لوگ ہوں اور ان میں سے چار او رپانچ سے آپ اختلاف رکھتے ہوں لیکن جب آپ ادارے کا نام لیتے ہیں توا س کا مطلب ہوتا ہے کہ ادارے کے تما م لوگ تنقید کی زد میں آجاتے ہیں ، پارٹی کے اندر یہ سوچ اب بھی موجود ہے کہ جب بھی آپ بات کریں اس مخصوص سوچ کی بات کریں کسی پورے ادارے کو نہ لپٹیں ۔ اس وقت ملک اور ادارے ان دیکھی قوت کے آسیب میں ہے کوئی ادارہ کام نہیں کرسکتا ، پوسٹنگ ، ٹرانسفر ، پرموشن سب مافیا کے زیر تسلط ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ جب میاں نواز شریف کی ریلی لاہو رمیں داخل ہورہی تھی تو کئی چینلز کو کیبل آپریٹر ادھر سے ادھر کررہے تھے جس پر ان سے پوچھا گیا توان کا کہنا تھا کہ ہم مجبور ہیں یہ ہم سے کروایا جارہا ہے یہ معاملات ہیں جن میں کوئی بھی ادارہ بطور ادارہ ملوث نہیں ہوتا لیکن چند افراد ہوتے ہیں جو بری سوچ کو آگے بڑھاتے ہیں ن لیگ میں پھوٹ او ر شریف فیملی میں اختلافات اور چوہدری نثار کے حوالے سے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار نے جو پہلے پریس کانفرنس کی اس سے پارٹی میں کوئی ان کی عزت میں اضافہ نہیں ہوا ہے میں چاہتاہوں کہ میں چوہدری نثار سے ملوں او رمل کر جو میرے احساسات ہیں وہ ان سے شیئر کروں ۔