قومی اسمبلی کی پچھلی نشستوں پر نوازشریف کی ’’نیم بغاوت‘‘ زیربحث

August 22, 2017

اسلام آباد (رپورٹ: فصیح الرحمٰن) قومی اسمبلی جہاں انتخابی اصلاحات کے لئے بل زیربحث ہے اور بڑا سوال یہی ہے کہ بل اکثریت سے یا اتفاق رائے سے منظور ہوگا۔

سرکاری بنچوں پر پچھلی نشستوں کے کچھ باخبر اور متجسس ارکان مسلسل اس بحث میں ملوث رہے کہ معزول وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے ’’نیم بغاوت‘‘ کی جاری کیفیت کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ ان تمام کو یقین ہے کہ انہیں سیاسی ہیجان خیزی کا جوا کھیلنے کی صورت 2018ء کے عام انتخابات میں اکثریت کھو دینے کی بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طاقت ور ادارے بھی انہیں کوئی ’’زیتون کی شاخ‘‘ پیش نہیں کریں گے، لیکن کچھ لو اور دو کی صورت 2018ء کے انتخابات سے قبل اور بعد میں ان کے بہتر پوزیشن میں ہونے کا امکان ہے۔ نوازشریف اس وقت جاتی امرا میں قیام پذیر ہیں جہاں وہ باریک بینی سے سیاسی امکانات اور حقائق کے ساتھ دستیاب ’’ہتھیاروں‘‘ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

وہ کچھ بجھے ہوئے اور قانونی طور پر گھیرے میں ہیں لیکن وہ سیاسی طور پر میدان سے باہر نہیں ہوئے۔ جی ٹی روڈ کے شو نے انہیں ڈٹے رہنے کی جذباتی قوت فراہم کی۔ حتیٰ کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے لئے آنے والے دنوں میں کوئی خوش کن منظرنامہ پیش نہیں کرتے۔ مرکز میں اب بھی نوازشریف ہی کی چلتی ہے جہاں ان ہی کی منتخب کردہ حکومت اور وزیراعظم ہیں۔ چار دہائیوں سے سسٹم ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔ اس درمیان قسمت کی دیوی ان پر وقفے وقفے سے مسکراتی رہی۔ جب انہیں اس دوران اپنی دو حکومتوں سے محروم ہونا پڑا۔ اوّل 1993ء میں اختیارات کے حامل طاقت ور صدر غلام اسحاق خان نے انہیں فارغ کیا اور دُوسرے 1999ء میں فوجی جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ وہ دن نوازشریف کی ذاتی اور سیاسی زندگی میں بدترین رہے۔

ابتداء میں تو انہیں دس سال کے لئے سعودی عرب جلاوطن کیا گیا لیکن یہ عرصہ معجزانہ طور پر کم ہو کر سات سال رہ گیا۔ وہ دسمبر 2007ء میں وطن واپس لوٹ آئے۔ معزول عدلیہ کی بحالی کے لئے 2009ء میں تحریک چلائی اور اپنے سیاسی قد کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔

یہ ایسے وقت ہوا جب پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن دو سال قبل ایک سانحے کی نذر ہو گئیں۔ بالآخر 2013ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے ذریعہ دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔ جس طرح ستمبر 2008ء میں زرداری کی منصب صدارت تک پہنچنے میں رُکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ تیسری بار وزارت عظمیٰ تک نوازشریف کی رسائی میں بھی کوئی روڑے نہیں اٹکائے گئے۔ ان کے پاس بہرحال اکثریت تھی۔ اسٹیبلشمنٹ میں بدترین مخالف بھی انہیں تیسری بار وزیراعظم بننے سے نہیں روک سکتے تھے۔ 2014ء میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا دنوں اور ہفتوں دھرنا چلا۔

پھر پاناما کا سیاسی تھیٹر سامنے آیا۔ اس کیس میں نااہل قرار دیئے جانے کے بعد نوازشریف نے جیسے کو تیسا جی ٹی روڈ مارچ سے اپنے سیاسی کھیل کو دائو پر لگایا۔ جس کے نتیجے میں حقیقی اسٹیبلشمنٹ کے ردعمل کا خطرہ بڑھ گیا۔ لیکن نوازشریف ایک منفرد شخصیت ہیں، وہ اسی سسٹم سے اُبھر ے لیکن گزشتہ کئی برسوں سے وہ اسی کے خلاف سراپا احتجاج اور بغاوت ہیں۔ وہ سیاسی موضوع بحث کا مرکز ہیں۔

عمران خان، آصف زرداری اور حتیٰ کہ شیخ رشید احمد اینڈ کمپنی پاناما کیس میں فیصلے کے دن خارج از امکان قرار دے ڈالا لیکن اس کے باوجود نوازشریف روزانہ ہی موضوع بحث ہوتے ہیں۔