پیپلز پارٹی کی پچاسویں سالگرہ اور جلوس

August 30, 2017

30نومبر2017کو پاکستان پیپلز پارٹی 50سال کی ہوجائے گی۔ اپنے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو سے صرف ایک سال کم۔پیپلز پارٹی کی پانچویں سالگرہ تھی جب میرا کھیل ’’جلوس‘‘ راولپنڈی کے لیاقت میموریل ہال میں سٹیج کیا گیا تھا۔ ’’جلوس‘‘ میری زندگی کا پہلا سٹیج پلے تھا۔ یہ کھیل میں نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی فرمائش پر لکھا تھا اور ان ہی کے کہنے پر اس کھیل کو پیپلز پارٹی کی پانچویں سالگرہ پر پیش کیا گیا تھا۔ اس کھیل کا ایک شو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی کابینہ کے ارکان، تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے علاوہ فوجی افسروں اور سفارتخانوں کے سربراہوں کو دکھایا گیا تھا جبکہ دوسرا شو پیپلزپارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں کے لئے مخصوص تھا۔ اس کھیل میں ایک ایسا جلوس دکھایا گیا تھا جو جبرواستحصال کی چھائونی فتح کرنے کے لئے نکلتا ہے۔ انتظامیہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس جلوس کو طاقت کے استعمال کے بغیر منتشر کیا جائے اور کسی صورت چھائونی کی حدود میں داخل ہونے نہ دیا جائے۔ انتظامیہ بہت سے حربے آزماتی ہے مگر جلوس منتشر نہیں ہوتا۔ آخری حربہ یہ لگایا جاتا ہے کہ اس جلوس کا ’’سمتوں کا شعور‘‘(Sense of direction ) خراب کردیا جائے۔ یہ حربہ کامیاب رہتا ہے اور جلوس طاقت کے استعمال کے بغیر ہی منتشر ہوجاتا ہے۔محمد حنیف رامے صاحب نے اس کھیل کے ساتھ تقسیم ہونے والے بروشر میں اس کھیل کا تعارف ان الفاظ سے شروع کیا تھا’’منو بھائی اپنے قاری پر بالکل اس انداز میں حملہ آور ہوتا ہے جیسے کوئی انقلابی گوریلا دشمن پر شب خون مارتا ہے۔ چپکے سے کسی ناگہانی بلا کی طرح وہ جھپٹتا ہے اور سیدھا دل پر پنجہ گاڑھ دیتا ہے۔ ایک عرصے سے میری یہ حالت ہے کہ میں اس کی تحریر میں جھانکنے سے پہلے اس طرح لرز اٹھتا ہوں جیسے مجھے اپنے ضمیر میں اترنے کے لئے کہہ دیا جائے، جہاں قدم قدم پر پھانسیاں گڑی ہوں اور ہر پھانسی پر میری لاش لٹکی ہوئی ہو، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ منو بھائی کی ادبی کاوش کا سامنا کرنا پڑا ہو اور میں لہولہان نہ ہوا ہوں،لیکن ’’جلوس‘‘نے تو مجھے ہی نہیں میرے سارے بھائی بندوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ساری پیپلز پارٹی کی نبض پر کسی سفاک ستارہ شناس نے ہاتھ رکھ دیا ہے اور مستقبل کی آنکھوں میں جھانک کر وہ ہماری تقدیر کو ہانک رہا ہے۔ منو بھائی کا کھیل’’جلوس‘‘کیا ہے، ہماری جدوجہد کی ایک درد انگیز جھلک ہے، اس جھلک کا تعلق بظاہر ماضی سے ہے لیکن یہ آنے والے وقت کے دھندلکوں کو چیر کر غیب کی خبر لانے کی ایک جسارت ہے اور غیب وہ حقیقت ہے جس سے انسان ہمیشہ ڈرتا چلا آیا ہے‘‘۔ محمد حنیف رامے صاحب کا تعارف ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے کہ’’درد تو بہت ہوگا لیکن دل سے یہ دعا نکلی ہی چلی جاتی ہے کہ منو بھائی بار بار تقدیر کا تازیانہ اٹھائے اور اتنا پیٹے اتنا پیٹے کہ خون کا دریا پھوٹ نکلے، جو میری اور میرے بھائی بندوں کی ساری خواہشوں، سارے مفادات کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے۔ ’’اس کھیل کے آخری منظر کے بعد پردہ گرنے ہی لگا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو سٹیج پر آگئے تھے اور اپنی تقریر ان الفاظ میں شروع کی تھی کہ’’منو بھائی کہتا ہے کہ یہ جلوس آگے نہیں جاسکتا مگر یہ جلوس آگے جائے گا اور جبرو استحصال کی چھائونی فتح کرے گا‘‘۔اس سال نومبر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پچاسویں سالگرہ آرہی ہے اور مجھے لگتا ہے اس کھیل کو ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے سب عہدیداروں اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور عوامی نمائندوں کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوچکا ہے۔ قافلہ ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش کے برعکس جبر و استحصال کی چھائونی کو شکست دینے کی بجائے گول گول دائروں میں گھومتا اپنی ڈائریکشن ایک بار پھر کھو چکا ہے اور دوبارہ اسی دائرے میں گھومنے والا ہے جہاں سے واپسی میں شاید دس پندرہ سال اور گزر جائیں گے۔گزشتہ پچاس سالوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی اس جلوس کو آگے لے جانے کی خواہش اور جبر و استحصال کی چھائونی کو شکست دینے کے خواب نے پاکستان کے ہر اس لیڈر کے دل میں جگہ بنائی جس نے عوام سے اپنے رشتے کو اپنی سیاست اور زندگی کا مقصد بنایا۔ محمدحنیف رامے صاحب کی طرح ہر درد مند پاکستانی کے دل سے یہ دعا نکلی کہ منو بھائی بار بار تقدیر کا تازیانہ اٹھائے اور اتنا پیٹے اتنا پیٹے کہ خون کا دریا پھوٹ نکلے، جو ارباب اختیار کی ذاتی خواہشات اور مفادات کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے ، لیکن اس سے پہلے کے دعا کی قبولیت کا وقت آتا یا جلوس جبر و استحصال کی چھائونی کے قریب ہی پہنچ پاتا، میر کارواں کو کسی گردش میں الجھا کر جلوس کا راستہ بدل دیا گیا۔