مسٹر بکس والا یوسف، کتاب دوست چلا گیا

September 09, 2017

عید کے تیسرے دن، ہم دوست اکٹھے باتیں کررہے تھے کہ ایک میسج نے ہم سب کو چونکا دیا۔ مسٹر بکس کا مالک بہت اچھا ادب دوست اور کتابوں کو اسلام آباد جیسے شہر میںپھیلانے والا ایک وہ تھا اور ایک سعید بک بنک والے سعید صاحب۔ دونوں ہی چلے گئے۔ ہم لوگ جب شام کو مسٹر بکس پر جاتے تو وہاں کئی ڈپلومیٹس، کئی افسر، کئی صحافی اور کئی سیاست دان مل جاتے گھنٹوں ہم کھڑے کھڑے باتیںکرتے سارے ہی موضوعات زیر بحث آتے، یوسف بھی ہمارے ساتھ شریک ہوتا اور ہم واپسی پہ خوش ہوتے کہ چلو یہاںٹی ہائوس نہیں ہے۔ البتہ مسٹر بکس پر بہت لوگوںسے ملاقات ہوجاتی ہے۔
یوسف کو حد سے زیادہ بڑھی ہوئی شوگر تھی۔ اس کے باعث آنکھوں کی بینائی بھی بہت حد تک ختم ہوگئی تھی۔ شوگر ہی کے باعث اس کے دونوںپائوں آدھے کاٹے جاچکے تھے۔ ان تمام بیماریوں کے باوجود وہ دوسری کتابوںکی دکان میں، مجھ سے بار بار کہتا کہ ادیبوں کے لئے ایک ٹی ہائوس بنائوں گا، اسے آپ خود کنٹرول کریں گی۔ یہی حال سعید صاحب کا تھا۔ دنیا بھر کی کتابیں منگوانے اور ڈسپلے کرنے کا شوق تھا۔
کتابوں کی دکانیں، مقتدرہ اور اکیڈمی نے بنائی ہوئی ہیں۔ ان میںزیادہ تر ان کی ہی شائع شدہ کتب مل جاتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا ٹی ہائوس اکیڈمی نے بھی بنایا ہوا ہے۔ وہاں مختلف ادارے جیسے حلقہ ارباب ذوق ہفتہ وار میٹنگ کرتے ہیں۔ اس طرحاکیڈمی کی طرف پندرہ دن بعد ایک ادیب سے ملاقات کا اہتمام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بوگھیو کی دلچسپی اکیڈمی کی کتابیں شائع کرنے میں بھی بہت ہے۔ صرف میرے جیسے بڈھوں کا مسئلہ ہے کہ اتنی دور تک گاڑی چلائی نہیںجاتی۔
بار بار رضا ربانی کہہ رہےہیںکہ طالب علموںاور دانشوروں کے بیٹھنے کے لئےکوئی جگہ ہونی چاہئے۔ وہ شاید لاہور کے ٹی ہائوس کو بھول گئے ہیںکہ جہاںضیا الحق کے زمانے میں ادیب کم اور ایجنسیوں کے لوگ بڑھتے گئے۔ اسلام آباد میںبھی جس موضوع پر بھی ادیبوں کی نشست ہوتی ہے، تین چار ایجنسیوں کے لوگ ضرور آتے ہیں۔ پتہ نہیںکس نے ان کو سکھایا ہے کہ ادیب حکومت کے خلاف بات کرتے ہیں۔
ادیب اکھٹے ہوتے ہیںتو ادیب کے علاوہ ملکی معاملات پر بھی بات کرتے ہیں۔ یہ سن کر غصہ چڑھتا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گرد نہیںہیں۔ جبکہ جماعت الدعو ۃ نے تو الیکشن لڑنے کے لئےسیاسی پارٹی بھی بنائی ہے۔ لشکر طیبہ اور پھر سب سے بڑھ کر تدریسی اداروںمیںداعش کا زور بڑھ رہا ہے۔ اگر ان باتوں کا تجزیہ کرو تو ایجنسیوں کے لوگ حکومت کو خبر دیتے ہیںکہ یہ لوگ محب وطن نہیںہیں۔ وہ باتیںجو ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر چھابڑی والا تک جانتا ہے، ہمارا میڈیا اور اخبارات تک اس کو جھٹلاتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے تک چوہدری نثار کہتے رہے، پاکستان میںداعش کا کوئی رکن نہیں۔ جب لڑکوں کے علاوہ پڑھی لکھی لڑکیاں بھی شام جاکر تربیت حاصل کرکے واپس ملک میںغارت گری کرنے لگیں تو پھر ذرا زبان کھلی۔
کتاب دوستی تو ہمارے ملک کے پروفیسروں اور بڑی تنخواہوں پر کام کرنے والے نوجوانوں میںبھی نہیں۔ سیدھا جواب ملتا ہے۔ کیا کریں وقت ہی نہیں ملتا۔ کتاب سے محبت پیدا کرنے کے لئے بک فائونڈیشن بھی بہت کام کررہی ہے۔مگر جب لاہور جاتے ہوئے، بس اسٹیشن پر اتر کر چائے پیتے ہوئے ، کتابوں کی جانب جاتی ہوںتو سنجیدہ فکشن یا ناول کم ہی نظر آتے ہیں۔ وظیفوںاور اسلامی تاریخکی کتابیںزیادہ نظر آتی ہیں۔ اس طرحمسٹر بکس اور سعید بک بنک میںبھی ہدایت نامہ شوہر قسم کی کتابیں اولین صف میںدکھائی دیتی ہیں۔ یوگا اور کھانا پکانے کی ترکیبوں والی کتابیں بہت فروخت ہوتی ہیںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنجیدہ کتابیںکیسے پڑھی جائیں اور کون پڑھائے۔ ہم جب کالج میںتھے تو ہمارے استاد، نئی کتاب پڑھنے کے بارے میںپوچھتے تھے۔ جن لوگوںنے نہیںپڑھی ہوتی تھی تو ان کو کتاب دی جاتی اور اس پر باقاعدہ بحث ہوتی۔ اس کا باقاعدہ ایک گھنٹہ مقرر ہوتا تھا۔ اب تو بچوں اور استادوںکو صرف کورس پڑھانے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ یوںاستاد بھی خوش اور شاگرد بھی ۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبال سوسائٹی، انگلش سوسائٹی کی طرحینگ سیکرز یونین الگ ہوتی تھیں۔ کنیرڈ کالج میںبھی سالانہ ڈرامہ ہوتا تھا۔ باقاعدہ یو۔این۔او کے سیشن منعقد کئے جاتے ہیں جس میں سب ملکوںکے نمائندے بن کر ہم لوگ بحث کرتے ۔ استاد ہمارے ایسے سیشن کے لئے بھی نمبر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں سالانہ مشاعرہ، ایکٹینشن لیکچر کے لئے باقاعدہ باہر سے ماہرین بلائے جاتے تھے۔ اب تو نہ چاک گریبان والے نظر آتے ہیں اور نہ وہ مجنوں جو کوئلوں سے دیواروں پر شعر لکھتے تھے۔ اب تو فیس بک پر بے ہودہ زبان اور کم عقلی کا مظاہرہ، سیاست اور مذہب کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ ہمیں کسی موضوع کی وضاحت چاہئے تو گوگلز اور یو ٹیوب پر تلاش کرتے ہیں۔ آج کل کے نوجوان یو ٹیوب پر فلمیں دیکھتے ہیں۔ بزرگ اور جوان عورتوں کو پہلے تو پوچھ لیتے تھے۔ آپ کے پاس وقت ہے، میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ اب تو شتر بے مہار کی طرحلڑکیاں اور لڑکے دوستی کے اس غار میںگر جاتے ہیں، جہاںسے واپسی صرف کتاب دے سکتی ہے!