روہنگیا مسلمان اور عالمی برادری

September 10, 2017

اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیئے جانے والے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف دو ہفتے قبل ملک کی بودھ اکثریت اور فوج کے ہاتھوں انسانیت سوز مظالم کی جو نئی لہر شروع ہوئی تھی وہ تاحال پوری شدت سے جاری ہے اور اسے روکنے کی کوئی مؤثر کوشش انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کی دعویدار بین الاقوامی طاقتوں اور عالمی برادری کی جانب سے نہیں کی جاسکی ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ روز بھی میانمار کے شمال مغرب میں فوج اور انتہاپسند بودھ بھکشوؤں نے روہنگیا مسلمانوں کے مزید آٹھ دیہات نذر آتش کردیئے۔ایک برطانوی صحافی کے بقول بدھ بھکشوؤں نے اسے بتایا کہ انہوں نے سرکاری فوج کی مدد سے گاؤں کو آگ لگائی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ راکھائن میں فوج اور انتہاپسند بدھ بھکشوؤں نے مسلمان آبادی کا صفایا کرنے کے لیے جلاؤ گھیراؤ کی مہم چلارکھی ہے اور مزید آبادیوں کے نذر آتش کیے جانے کے نتیجے میں پناہ کے لیے بنگلہ دیش پہنچنے والوں میں اور اضافہ یقینی ہے جبکہ ان کی تعداد اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق تقریباً پونے تین لاکھ تک پہلے ہی پہنچ چکی ہے۔میانمار کی فوج بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر بارودی سرنگیں نصب کررہی ہے جس پر ایک روز قبل بنگلہ دیشی حکومت نے میانمار کے سفیر کو طلب کرکے اس سفاکانہ کارروائی کے خلاف احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔اقوام متحدہ کی ترجمان نے صورت حال کو ’’انتہائی خطرناک‘‘ قرار دیتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔میانمار کے سابق ڈکٹیٹر تھین سین کا موقف جس کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کے سامنے کیا تھا یہ تھا کہ روہنگیا مسلمان پچھلی صدی میں بنگال سے آنے والے غیرملکی ہیں اس لیے انہیں یہاں سے چلے جانا چاہیے، اگر کوئی تیسرا ملک انہیں قبول کرنے کو تیار ہو تو میں انہیں وہاں بھیج دوں گا۔تاہم متعددمعتبر ذرائع کے مطابق اس امر کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ روہنگیامسلمان کم از کم اٹھارہویں صدی سے اس علاقے میں آباد ہیں بلکہ بعض مورخین آٹھویں صدی میں آنے والے عربوں سے بھی ان کا تعلق جوڑتے ہیں۔میانمار میں ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے طویل مدت تک جدوجہد کرنے والی خاتون رہنما آنگ سان سوچی کے برسراقتدار آنے کے بعد توقع تھی کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں مکمل شہری حقوق دے کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا اور جمہوری حکومت بھی اس معاملے میں اسی سنگ دلی کا مظاہرہ کررہی ہے جوپچھلے دور آمریت میں کیا جارہا تھا ۔ اس طرح روہنگیا مسلمان دنیا کی ایسی اقلیت بن گئے ہیں جس کا کوئی ملک نہیں۔ میانمار کی فوج اور بدھ بھکشوؤں کو ان کے قتل عام کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ پاکستان اور دوسرے کئی مسلمان ملکوں کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں بھی عوامی سطح پر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ترکی کے سوا کسی بھی ملک نے حکومتی سطح پر ان مظلوموں کی عملی امداد کے لیے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا ہے۔ ستاون اسلامی ملکوں پر مشتمل او آئی سی، پوری عالمی برادری کی نمائندہ انجمن اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی درجنوں تنظیمیں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کرسکی ہیں حالانکہ یہ ایک نہایت سنگین انسانی مسئلہ ہے جسے فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو یہ تاریخ کے بدترین انسانی المیوں میں ایک اور ہولناک باب کے اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ لہٰذا پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ میانمار کی حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کو مکمل شہری حقوق دینے پر آمادہ کرے اور اس کے لیے تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے کیونکہ یہی اس مسئلے کا واحد قابل عمل اور منصفانہ حل ہے۔