آواز کا جادو جگانے والی ملکہ ترنم نور جہاں

September 21, 2017

پچاس سال تک اپنی خوبصورت آواز کا جادو جگانے والی ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے، اس نا قابل فراموش ہستی کا آج 91 واں یوم پیدائش ہے۔

نور جہاں کو بچپن سے ہی سریلے پن کی بناء پر اہمیت دی جاتی تھی۔ وہ موسیقی کا تقریباََ ہر راگ گا سکتی تھی۔ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کہتے تھے کہ وہ گھنٹوں ایک ہی سر پر قائم رہ سکتی تھیں۔ مشکل سے مشکل گانا بھی ان کے لئے آسان تھا۔انہوں نے اس قدر ریاض کیا تھا کہ آج کے دور میں تصور بھی محال ہے۔

نور جہاں جب پیدا ہوئی تو ان کا نام ان کے والدین نے اللہ وسائی رکھا۔ ان کے خاندانی رواج کے مطابق ان کو موسیقی کی تعلیم دلانے کے لئے استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا گیا۔ جب پہلی بار استاد نے ان کا امتحان لیا تو ان کی آواز کی لوچ اور مٹھاس محسوس کر کے حیران رہ گئے۔

جہاں دوسرے بچے اپنا وقت کھیل کود میں گزارتے تھے وہاں نور جہاں گھنٹوں ریاض کیا کرتی تھیں۔ یہ ان کے ریاض کی بدولت ہی تھا کہ محض سات سال کی عمر میں اسٹیج پر گانے کے قابل ہو گئیں۔

اس دور کی مشہور گلوکاراوٴں میں مختار بیگم اور اختری بائی فیض آبادی کے گیت گانے میں انہیں مہارت حاصل ہو گئی تھی۔

اسی دور میں نور جہاں کو برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ” شیلا عرف پنڈ دی کڑی“ میں اپنی دونوں بہنوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ فلم سپر ہٹ ہوئی۔

ان کو پنجابی فلموں کے ساتھ ہی اردو فلمیں بھی ملنے لگی تھیں۔ ان فلموں میں فخر اسلام ، ہیر رانجھا، ہیر سیال، مسٹر 420 ، تارن ہار اور ناممکن شامل ہیں۔ یہ ابتدائی فلمیں نا کام رہی تھیں تاہم ان میں ایک فلم ”سسی پنوں“ سپرہٹ ہوئی تھی اور پھر کامیابیوں اور شہرت کانہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ان کو بھاری معاوضوں پر بھارت میں گانے کی پیشکش ہوتی رہی لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور پاکستان آگئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے فلم انڈسٹری کی واحد تاقابل تسخیر گلوکارہ کا مقام حاصل کیا۔

ان کو اردو اور پنجابی گانوں اور گفتگو پر کمال حاصل تھا۔ وہ اہل زبان کی طرح اردو اور ٹھیٹھ لہجے میں پنجابی بول سکتی تھیں۔ ان کے گائے ہوئے گیت برصغیرکے عوام کو ہمیشہ یاد رہیں گئے۔