پاک امریکہ تعلقات:برف پگھلنے کے آثار

September 22, 2017

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر نیویارک میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے مختصر گفتگو اور نائب صدر مائیک پنس سے باضابطہ بات چیت سے اگرچہ پاک امریکہ تعلقات میں برف پگھلنے کے آثار نظر آرہے ہیں مگر اس مرحلے پر واشنگٹن کی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جانی چاہئے۔ امریکی صدر نے 21اگست کو افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی جس پالیسی کا اعلان کیا اس کا پاکستان میں حکومتی، پارلیمانی اور عوامی سطح پر ردعمل ہوا اور اس کے بعضمظاہر بھی سامنے آئے۔ اس حقیقت کو بہرطور نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ افراد کی طرح ملکوںکے تعلقات میں بھی اتار چڑھائو اور خفگی و گرمجوشی کے مراحل آتے رہتے ہیں مگر رابطوں، ملاقاتوں اور بات چیت کی صورت میں باہمی رشتوں کو برقرار رکھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ امریکہ عالمی سپر پاور ہے جس کے ساتھ پاکستان مختلف میدانوں میں سمجھوتوں کے ذریعے بندھا ہوا ہے جبکہ واشنگٹن کیلئے بھی یہ بات آسان نہیں کہ وہ اسٹرٹیجک محل وقوع کے حامل پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں زیادہ عرصے تک سرد مہری برقرار رکھ سکے۔ پاک امریکہ تعلقات کی اہمیت ایسی صورت میں بہت بڑھ جاتی ہے کہ امریکہ افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور وہاںاپنی فوجی موجودگی کو بڑھانا چاہتا ہے۔ جہاں تک صدر ڈونلڈٹرمپ کا تعلق ہے، ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ کسی بھی وقت کوئی بھی ایسی بات کہہ سکتے ہیں جس کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ امریکہ میں متعدد تھنک ٹینک مسلسل تحقیق اور جائزوںکے ذریعے امریکی حکومت کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے ’’آئیڈیاز‘‘ فروخت کرتے رہتے ہیں جن کی بنیاد پر چند برسوںکیلئے نہیں بلکہ آئندہ ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ مدت کیلئے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ اسی لئے بعض امریکی صدور کو اپنی انتخابی مہم میںکئے گئے کئی اعلانات سے روگردانی کرتے ہوئے اس طویل المیعاد حکمت عملی کی راہ پر چلنا پڑتا ہے جو پہلے سے صدیوں کیلئے بنی ہوئی ہے۔ امریکی صدر نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کئی ملکوں کیلئے دھمکی آمیز الفاظ استعمال کئے تھے جن پر ایران، چین اور وینزویلا نے سخت الفاظمیں تنقید کی ہے۔ اس منظرنامے میں وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، اردن کے شاہ عبداللہ، ایران کے صدر حسن روحانی، برطانوی وزیراعظم تھریسامے اور عالمی بینک کی سی ای او کرسٹالینا جارجیوا سے جو ملاقاتیں کیں ان کی اپنی اہمیت ہے مگر امریکی صدر سے ظہرانے میں رسمی ملاقات کے دوران افغان معاملے پر ہونے والی گفتگو، صدر ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں پاکستان کے کردار اور پاک امریکہ شراکت کے تسلسل کے بارے میں مثبت رویہ کا اظہار بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ امریکی نائب صدر مائیک پنس سے وفود کے ہمراہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جو بات چیت ہوئی وہ مقررہ وقت30 منٹ سے15منٹزیادہ جاری رہی۔ اس ملاقات میں امریکی نائب صدر نے امن اور سلامتی کے شعبوں میں پاکستان سے طویل مدتی شراکت داری کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کیلئے نئی راہیںتلاش کرنے کا جو عندیہ دیا وہ باہمی سرد مہری کے خاتمے کا بھی اشارہ ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے اور شمالی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے جو کامیاب آپریشن کئے گئے ان کی دنیا میںمثال نہیں ملتی۔ حقائق بھی یہی ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا کے ہر ملک سے زیادہ قربانی دی ہے۔ جہاں تک افغان مسئلے کا تعلق ہے اس کا حل مکالمے میں ہی مضمر ہے۔ جس کیلئے اسلام آباد کے کردار کی ضرورت پڑے گی۔ بھارت کو افغانستان میں مؤثر کردار دینا ایسی غلطی ہوگی جس کا اندازہ افغانوں کے مزاج کو سمجھنے والے ہی کرسکتے ہیں۔