پاک سعودیہ لازوال دوستی خصوصی مراسلہ …حافظ محمد علی یزدانی

September 23, 2017

سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی سے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ یک جان دو قالب والا معاملہ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ سعودی عرب کے حکمراں پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور ہیں اور انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا بھائی سمجھا ہے اور پاکستان سے محبت اور تعلق کا اظہار متعدد بار دو ٹوک انداز میں کیااور اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کے عوام سے محبت کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال پاکستان کے ایٹمی دھماکے ہیں، دنیا کے اکثر ممالک ایٹمی دھماکوں پر پاکستان سے خوش نہ تھے۔ بہت سے ملکوں نے پاکستان کی امداد بند یا مختصر کردی تھی۔ اس مشکل وقت میں شاہ عبداللہ کا پاکستان کی حمایت کرنا اس بات کا ثبوت ہی تو تھا کہ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے تھے اور موجودہ شاہ سلمان بن عبد العزیز بھی پاکستان سے اسی طرح محبت و الفت رکھتے ہیں جس طرح سابقہ شاہ پاکستان سے رکھتے تھے۔ سعودی عرب کا قومی دن ہر سال 23 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے 1932ء میں عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کی بنیاد رکھی ،ستاسی ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے ہوئے اس خطے میں ایک جدید مثالی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں، اس کے باعث بھی پوری دنیا کے مسلمان ان سے خصوصی عقیدت رکھتے ہیں۔ جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر سعودی عرب کا اکرام یوں بھی لازم ہے کہ پوری دنیا میں مملکتِ خداداد پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے، جس کا دستور قرآن وسنت ہے اور اس کے حکمرانوں کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور مسلمانان عالم کے لئے ملی تشخص کا جذبہ ہے۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ مسلم امہ میں اتحاد قائم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے ۔اس مقصد کیلئے رابطہ عالم اسلامی قائم کی اور یہ بین الاقوامی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنا، اسلام کی دعوت و تبلیغ ، اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنا ہے۔ سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک اس خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شہزادہ محمد بن سلمان نے 34 رکنی اتحاد بنایا جس کی قیادت پاکستان کےسپہ سالار راحیل شریف کے سپرد کی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے سفرا بھی پاکستان میں کافی متحرک رہے ہیں اور حال ہی میں تعینات ہونے والے سفیر سے بھی کافی توقعات وابستہ ہیں کہ وہ دونوں ممالک کےدرمیان اتحاد و تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی جانب سے مکتب الدعوہ اور رابطہ عالم اسلامی جیسے ادارے بھی سعودی عرب کی سفارت کا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ حال ہی میں سعودی علما کے وفد نے پاکستانی علما سے ملاقات کی جنہوں نے یقین دیالا کہ وہ ہر لمحے پاکستان کی حفاظت و سلامتی کے متمنی اور دعا گو رہتے ہیں۔ سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی رسمی، عارضی، مصلحت کی دوستی نہیں بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام ایک دوسرے سے روحانی تعلق کے تحت باہم جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کے وجود کا مرکز و محور مکہ ان کی روح ہے تو مدینہ میں ان زندگی ہے۔ پاکستانی اپنی روح اور زندگی کے بغیر ادھورے ہیں۔ وہ ان دونوں کے بغیر نہ مکمل اور کچھ بھی نہیں۔ اس لئے یہ رشتہ دونوں ممالک کے درمیان تاازل قائم و دائم رہےگا۔