جیل میں دوران قید انتخابات لڑنے والے عالمی سیاستدان

October 23, 2017

لاہور(صابرشاہ) گزشتہ سالوں میں چشم فلک نےبے شمار ایسے سیاستدان دیکھےہیں جنہوں نےسنگین جرائم کےارتکاب کی پاداش میں یاکرپشن سے قتل اور اغوا سے لے کربغاوت جیسےجرائم کےمخالفین کے الزامات کی بناء پر قید کاٹتےہوئےالیکشن میں کامیابی حاصل کی۔یہ بات ’’جنگ گروپ اور جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک‘‘ کی جانب سے کی گئی ریسرچ سے واضح ہوتی ہے ۔اس حوالے سے چند مثالیں ذیل میں دی گئی ہیں۔

سابق بنگلہ دیشی صدر جنرل حسین محمد ارشادنے 1991ء اور1996ء میں جیل سے عام الیکشن کامیابی سے لڑا اوردونوں باررکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔یوگو سلاویہ کے سابق صدر سلوبوڈن ملازووچ کوجنگی جرائم پر سوئٹزرلینڈ میں قید کیا گیا تھا،انہوں نے دسمبر 2003ء میں سربیا مونٹی نیگرو کی پارلیمانی نشست جیتی تاہم ان کی سوشلسٹ پارٹی نےانہیں سیٹ نہ دینے کا فیصلہ کیاکیونکہ پارلیمنٹ کےقواعد کے مطابق ہر رکن کےلئے پہلے اجلاس میں ذاتی طور پر شرکت لازمی تھی ۔ شمالی آئرلینڈ کے کئی ری پبلکنز نے زیر حراست ہونے کے باوجود برطانوی پارلیمنٹ میں سیٹیں جیتیں ، ان اسیروں میں اسے ایک بھوک ہڑتال کرنےوالی معروف شخصیت بوبی سینڈز تھے تاہم ان تمام آئرش سیاست دانوں نے اپنی نشستیں لینے سے انکار کردیا کیونکہ ان کا موقف تھا کہ پارلیمنٹ کو شمالی آئرلینڈپر کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔

دسمبر 2009ء میں مروان برغوتی نے فلسطینی اتھارٹی کی صدارت کے لئے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جبکہ وہ قتل کے الزام میں 5بار عمر قید کاٹ رہے تھے اورالفتح کےنسبتاً اعتدال پسندمعروف لیڈر محمود عباس کے حریف تھے۔ سابق پاکستانی صدر آصف زرداری1997ءمیں کراچی جیل میں اسیری کےدوران سینٹ کا الیکشن جیتے، دسمبر1997ء میں انہوں نےحلف لینے کے لئے سخت سکیورٹی میں جہاز پر اسلام آباد کاسفر کیا۔3جولائی 1998ء میں سوئس حکومت کی جانب سے منی لانڈرنگ کے حوالے سے دستاویزات پاکستانی حکام کو دینے پر ان پر پاکستان میں کرپشن کا الزام لگا۔زیرحراست ہونے کے باوجود زرداری نے90ءمیں قومی اسمبلی کےلئے منتخب ہونے کے بعد علامتی طور پر بطور رکن پارلیمنٹ خدمات انجام دیں،وہ 2004ء میں جیل سے رہا ہوئے اور خود ساختہ جلا وطنی کا راستہ چنا ۔اگست 2016ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے وسیم اختر جیل سےمیئر منتخب ہوئے۔انہیں اپنےحق رائے دہی کےاستعمال کےلئےکڑےپہرےمیں لایا گیا۔

وسیم اختر کا مؤقف تھا کہ انکے خلاف تمام مقدمات سیاسی ہیں جن کاکوئی ثبوت نہیں۔ دہشتگردوں کے علاج کے کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت سےضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مستردہونے کے بعد 19جولائی 20016ء سےوہ جیل میں تھے۔ جون2016ء میں رومانیہ کے میئر کیٹلین کریچز نےاسیری کےدوران70فیصداکثریت سےدوبارہ مینڈیٹ حاصل کیا۔ کیٹلین کو اپریل 2016ء میں رشوت ستانی کےالزام میں گرفتار اور قید کیا گیا،ایک اور رومانین میئر لیاواسی لیسیو بھی مکرر 70 فیصد سے زائد ووٹ لینےمیں کامیاب ہوئیں۔ انہیں مارچ 2016ء میں رشوت ستانی کے الزام پر اینٹی کرپشن کے پراسیکیوٹر ز نے پکڑا اور پھر گھر پر نظر بند کر دیا تھا۔

امریکا میں شکاگو کے ایک کونسل ممبر نے دوسری مدت کیلئے عہدےکا حلف لیاجبکہ ان کے چنائو کا مقام سٹی ہال نہیں کائونٹی جیل تھاجہاں رائے شماری کے عمل کی نگرانی مئیر شکاگو نہیں بلکہ ایک سرکاری افسر نےکی۔’’شکاگو ٹرائبیون ‘‘کےمطابق کونسل ممبر مختلف جرائم کےالزام میں جیل کاٹ رہا تھا ، ورجینیا کے قانون ساز جوزف موریسی نےجنوری 2015ء میں اسیری کے دوران ریاست کےایوان نمائندگان کےالیکشن کے لئے کامیاب انتخابی مہم چلائی ، وہ ایک کمسن کی خطا میں معاونت کے الزام میں سزا بھگت رہےتھے۔خبر رساں ایجنسی ’’روئٹرز ‘‘ کے مطابق جوزف نے42.3فیصد ووٹ حاصل کئے ۔ امریکا کےایک دائمی صدارتی امیدوار لنڈن لاروشےنے1992ءمیں اپنی انتخابی مہم جیل سے چلائی جبکہ 1920ء میں سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر اور معروف انڈسٹریل یونین ورکریوجین ڈیبز بھی انہی کے راستے پر چلے، لاروشے 1976ء سے2004ء تک ہرصدارتی الیکشن میں امیدوار تھے (وہ ایک بار اپنی لیبر پارٹی اور7بار ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سےالیکشن لڑے) ۔

یوجین ڈیبز سوشلسٹ پارٹی کی جانب سے 5بار 1900،1904، 1908،1912اور1920ء میں صدارتی امیدوارتھے،لاروشے کو جنوری1989ء میں انٹرنل ریونیو سروس سےفراڈ کی منصوبہ سازی اوراپنے حامیوں سے لئے گئے 30ملین ڈالرکےقرضے جان بوجھ کر ڈیفالٹ کرنے پر15سال قید کی سزا سنائی گئی (بحوالہ دی نیو یارک ٹائمز)دوسری جانب یوجین ڈیبز جو کہ اپنےجوش خطاب کے لئےشہرت رکھتے تھے، امریکا کی پہلی جنگ عظیم میں شمولیت کے خلاف بولنے پر 1918ء میں دوسری بار گرفتار ہوئے۔ انہیں بغاوت ایکٹ کے تحت مجرم قرار دے کر10سال قید کی سزا دی گئی۔ امریکی صدر وارن ہارڈنگ نے دسمبر1921ء میں ان کی سزا میں تخفیف کردی۔

( بحوالہ دی انڈیا نا میگزین آف ہسٹری، دی نیو یارک ٹائمز) تاریخ بتاتی ہے کہ 1978ء میں ریاست ورمونٹ کےکانگریس ممبرمیتھیو لائن نے بغاوت ایکٹ کی خلاف ورزی پر 4ماہ کی قید بھگتتے ہوئے دوبارہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ لائن اپنی رہائی کے بعد واشنگٹن گئے اور ایوان نمائندگان میں فیصلہ کن ووٹ ڈال کر تھامس جیفرسن کو صدر بنایا ۔19ویں صدی میں ایک اور امریکی سیاست دان جوزف بارکر پٹسبرگ کے میئر منتخب ہوئے جبکہ وہ اس وقت شورش کوہوادینےکے الزام میں ایک سال کی قید کاٹ رہے تھے۔ ایک امریکی میڈیا ہاؤس کے مطابق ’’بار کر کی سزا کی سنگینی نے شہر کو متوجہ کرلیا اورجلد ہی وہ میئر کے لئے ایک مقبول امیدوار بن گئے۔خوش قسمتی سے بارکر کو جیل سے اُمور نہیں چلانے پڑے اورالیکشن سے ایک رات قبل انکےحامیوں کے ایک جتھےنےسٹی جیل پر دھاوا بول دیااوربارکر کی فوری رہائی کےلئےشیرف کو دھمکیاں دیں ۔ جلدہی یہ بات واضح ہوگئی کہ شہریوں نےایک ذہنی مریض اور بے وقوف شخص کو منتخب کرلیاہےتاہم اگلے الیکشن میں شہریوں نےبارکرکو گھر بھجوادیا۔‘‘

ایک اور امریکی سیاست دان جیمز مائیکل کورلے نے 1904ء میں سول سروس کے لئے اپنے دوست کی جگہ امتحان دینے کی پاداش میں دوران اسیری اپنی نشست جیتی، پھر1947ء میں میئر باسٹن کے طور پر اپنی آخری مدت کے وسط میں انہیں میل فراڈ پر سزا ہوگئی تاہم جب وہ جیل گئے تو انہوں نے میئر کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ کورلے صدر ہیری ٹرومین کی جانب سے معافی ملنے سے پہلے صرف5ماہ قید رہے۔ صدرٹرومین اسکےبعد باسٹن کےایک لاکھ سے زائدشہریوں کےناموں کے ساتھ پٹیشن کا جواب دیتے رہے۔ نومبر2013ءمیں بھارت میں سپریم کورٹ نے مرکز کی طرف سےگرفتار افراد کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی کےفیصلے پرنظرثانی کی اپیل مسترد کردی اور کہا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے قانون میں ترمیم کے تناظر میں اس معاملے پر غور کی ضرورت نہیں ۔پریس ٹرسٹ آف انڈیا اور این ڈی ٹی وی کے مطابق ’’ایک این جی او لوک براہری کی جانب سے مرکز کی پٹیشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس نےعوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کو چیلنج کررکھاہےجس پر عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ترمیم کی آئینی توثیق کے معاملے کو الگ سے دیکھا جائے گا۔

2017ء میں دی اکانومسٹ نےلکھا’’بھارت میں جرائم پیشہ ہونا ایک انتخابی اثاثہ سمجھا جاتاہےجوکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔‘‘ بہار کےایک سیاستدان محمدشہاب الدین2004ءمیں دوبارہ منتخب ہوگئےاورانہیں بطور رکن پارلیمنٹ حلف لینے کے لئےنئی دہلی جانے کی اجازت بھی دی گئی ۔4مرتبہ منتخب ہونیوالےاس سیاستدان پر40سے زائد مقدمات ہیں اوروہ قتل کے الزام میں عمر قید کاٹ رہے ہیں۔ ستمبر2016ء میں وہ11سال قید بھگتنےکےبعدرہا ہوئے،قتل کے ایک مقدمے میں ان کی ضمانت منظور کی گئی ۔ اکتوبر2016ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں ایک بار پھر جیل بھجوادیا۔انڈین ایکسپریس کےمطابق’’سپریم کورٹ نےبہارحکومت کوحکم دیاکہ انہیں فوری حراست میں لیا جائے ، جسٹس پی سی گھوسا اورجسٹس امیتوا روئے نے 7ستمبر کو پٹنہ ہائیکورٹ کی منظور کردہ ضمانت منسوخ کردی اورفیصلہ دیاکہ گینگسٹرسےسیاست دان بننےوالےاس شخص کی ہائیکورٹ کاضمانت منظور کرنےکافیصلہ منصفانہ نہیں تھا۔‘‘

ایک اور مجرم بھارتی سیاست دان جس نے جیل سےالیکشن جیتا وہ کامیشور بھاٹیہ تھا۔13اکتوبر2013ء کودی نیویارک ٹائمزنےلکھا’’جب کامیشور بھاٹیہ نےشمال مشرقی بھارت میں اپنے غربت کے شکار اور نچلی ذات کی اکثریت والے حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاتواسےاپنےکریمنل ریکارڈ کواچھا بنا کر پیش کرنے میں زیادہ محنت نہیں لگی۔اس نے خود پر عائد سنگین الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔ان میں سےقتل کے17، اقدام قتل کے 22، خطرناک اسلحےسےحملے کے 6، چوری کے5،اغوا کے دو اور دیگر الزامات شامل تھے۔ جو کہ ان کے مقامی مائو نواز لیڈر کے دورسےمتعلق تھے۔سب سےبڑی بات یہ کہ وہ جیل میں تھے۔ انکےبیٹےببن کمارنےبتایا کہ اس سےانکےووٹروں پر کوئی اثر نہیں ہوا جبکہ ببن کمار بھی اپنے والد کی طرح سیاست دان بننا چاہتےہیں اور اس علاقے کے لوگ رابن ہڈ جیسی شخصیت ہی پسندکرتےہیں تویہی عنصر مددگار رہا ہوگا۔‘‘

امریکی اخبار نے لکھا’’ملک بھر میں کریمنل مقدمات کا سامنا کرنے والے بھارتی حکام کی تعداد غیر معمولی ہے۔نئی دہلی کےایک ریسرچ گروپ ایسوسی ایشن آف ڈیمو کریٹک ریفارمزکےمطابق یہ شرح 2008ء سے الیکشن جیتنے والوں میں30فیصدتک ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں کیونکہ بھارت کےجمہوری نظام میں ووٹروں پر اثر انداز ہونے اور عہدے حاصل کرنے کے لئے امیدوار دہشت ناک غنڈوں اور امیر لوگوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں جبکہ کرپشن کی جڑیں دور دور تک پھیل چکی ہیں۔سابق بنگلہ دیشی صدر جنرل حسین محمد ارشادنے 1991ء اور1996ء میں جیل سے عام الیکشن کامیابی سے لڑا اور دونوں مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔1990ء میں جمہوریت کےحق میں زبردست تحریک کے نتیجے میں انہیں اقتدار ایک نگراں سیٹ اپ کے حوالے کرنا پڑا تھا اور اقتدار سے نکالے جانے کے فوری بعد وہ اپنے کئی کابینہ اراکین کےساتھ گرفتار ہوئے۔

1997ء میں وہ تقریباً 6 سال جیل میں گذارنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے۔ 2000ء میں بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے انہیں سرکاری فنڈز کے غلط استعمال اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر سزا سنانے والی عدالت کے روبرو گرفتاری دینے کا حکم دیا۔