کشمیر کا مستقبل کیا ؟

November 27, 2017

جدوجہد آزادی میں لاکھوںجانوں کی قربانی دینے اور گھر بار لٹوانے کے باوجود کشمیر عوام ابھی اپنی منزل کو نہیںپہنچے۔ جدوجہد کے اس مرحلے پر کچھ لوگ ریاست کے مستقبل کے بارے میںمایوس، کچھ امید اور نا امیدی کے درمیان معلق اور کچھ یقین کامل کے ساتھ جموں و کشمیر کو بھارتی استعمار سے آزاد ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اُمید و بیم کے درمیان الجھے ہوئے لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کیلئے بھارت انتہائی جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ۔ اقوام متحدہ کا ادارہ جس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت میں متفقہ قرارداد منظور کی تھی، بے رحمانہ بے حسی کا شکار ہے۔ عالمی برادری نے اس معاملے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں خطے کی سپر پاور بنانے کے شوق میں اس کی پشت پناہی کر رہا ہے ، عالم اسلام منقسم اور منتشر ہونے کی بنا پر کوئی عملی کردار ادا کرنے سے کترا رہا ہے اور پاکستان اپنے گوناگوں داخلی اور خارجی مسائل کے سبب دفاعی اقدامات تک محدود ہو چکا ہے۔ اس لئے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کشمیری کب تک جانیں دیتے رہیں گے اور کشمیر کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس کے بر خلاف ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ اپنی آزادی اور تشخص کیلئے جدوجہد کرنے والی قومیں گزرتے ہوئے ماہ و سال کا حساب رکھنے کی بجائے ہمیشہ اپنی منزل مقصود پر نظر رکھتی ہیں۔ چاہے اس کے حصول میں صدیاں گزر جائیں۔ انگریز تقزیباً دو سو سال تک ہندوستان پر قابض رہے لیکن بالآخر انہیںیہاں سے نکلنا پڑا۔ جموں و کشمیر کے 70سالہ پرانے تنازعہ میں وہاں کے عوام بنیادی فریق ہیں وہ تمام تر مصائب و آلام کا مقابلہ کرتے ہوئے بھارت سے اپنی آزادی کیلئے بے جگری سے ہر محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ دس شہید ہوتے ہیں تو سو ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج ان کے آہنی عزم کے سامنے مایوسی تھکاوٹ اورشکست خوردگی کاشکار ہو چکی ہے۔
جموں وکشمیر کے مستقبل کے حوالے سے موجودہ قومی وبین الاقوامی صورت حال کے تناظر میں راقم نے مقبوضہ اور آزادکشمیر کے صاحب نظر راہنماؤں کی رائے جاننا چاہی تو کنٹرول لائن کے اس طرف سینئر ترین کشمیری رہنما سردار سکندرحیات نے جو آزادکشمیر کے وزیراعظم اور صدر کے بلند مناصب پر فائز رہے اور پیرانہ سالی کے باوجود اب بھی کارزار سیاست میںسرگرم ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ،بین الاقوامی برادری اسلامی ممالک کی تنظیم اور پاکستان کے سیاستدانوں کے کردار پر مایوسی کا اظہار کیا۔ کوٹلی میں اپنی رہائش گاہ پر ایک ملاقات میںان کا کہنا تھا کہ غیر تو رہے ایک طرف، ترکی کے سوا اسلامی ممالک بھی کھل کر ہمارا ساتھ نہیںدے رہے۔ او آئی سی کی سوڈان میں ہونے والی کانفرنس میںقطر بھارت کو مسلم ممالک کی تنظیم میںشامل کرنے کی قرارداد پیش کرنے والا تھا ۔ میںنے اس وقت کے صدر پرویز مشرف سے کہا یہ کیا ہو رہا ہے؟ پرویز مشرف نے میرے ایما پر دھمکی دی کہ قرارداد کانفرنس میں پیش کی گئی تو پاکستان او آئی سی سے نکل جائے گا۔ یوں یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت اسلامی ملکوں میں ایسا کوئی مسلمان لیڈر نظر نہیںآتا جو انہیںمتحد کر کے ایک بڑی قوت بنا سکے۔ سردار صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کیلئے واحد سہارا اور آپشن ہے مگر مسلم لیگیوں سمیت پاکستان کے سیاست دان اب صرف سیاست کیلئے کشمیر کا نام لیتے ہیں۔ وہ بھی عوام کے خوف سے، کیونکہ پاکستان کے عوام دل و جان سے کشمیریوں کے ساتھ ہیںاور کشمیر کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ سردار صاحب یہ بھی کہتےہیں کہ کشمیریوں نے صدیوں سے کسی بیرونی طاقت کا تسلط قبول نہیں کیا۔ مقبوضہ وادی میں ہونے والی جدوجہد اس کا بین ثبوت ہے۔ اس جدوجہد میںجلد یابدیر کشمیری ضرور سرخروہوں گے۔ آئے روز درجنوں کشمیری نوجوان شہید ہو رہے ہیں مگر ان کے عزم پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ کبھی بھارت کے سامنے سرنڈر نہیں کریں گے۔
حریت کانفرنس کے رہنما تحریک آزادی کے ہمہ وقتی مجاہد اور کمانڈر سید یوسف نسیم اس بات سے متفق نہیںکہ دنیا کشمیری عوام کی جدوجہد کے حوالے سے بے حسی کا شکار ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اس حوالے سے قطعاً مایوس نہیںہوں۔ سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ، یاسین ملک اور دوسرے حریت راہنماؤں کو بھی اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے صدر کشمیریوں پر مظالم کی مذمت کرتے ہوئے وہاں تحقیقاتی مشن بھیجنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تمام عالمی تنظیموں نے اپنی ہر رپورٹ میںبھارت کی مذمت کی ہے اور اس سے کشمیریوں پر مظالم بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ او آئی سی اگرچہ اسلامی دنیا کا کوئی مسئلہ حل نہیں کراسکی مگر وہ کشمیریوں کےساتھ ہے۔ ترکی سعودی عرب اور دوسرے ممالک کشمیری عوام کی کھل کر حمایت کررہے ہیں۔ یورپ امریکہ اور برطانیہ ہر جگہ کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے اپنے مسائل ہیں یہاں حکومتوں کی کشمیر پالیسی موسموں کے ساتھ بدلتی رہی مگر پاکستانی قوم ہمارے ساتھ ہے پاکستان کو چاہئے کشمیری قیادت پر اعتماد کرے خود پیچھے رہے اور مختلف زبانیں جاننے والے کشمیریوں کی ٹیمیں دنیا میں بھیجے۔ انہیں فارن آفس میں ٹریننگ بھی دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت جنگ ہار چکا ہے وہ جتنے ظلم کرے، جتنی اذیتیں دے، کشمیریوں کو آزادی کے مشن سے ہٹا نہیںسکتا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ کشمیری مرنا پسند کریں گے مگر بھارت کے آگے سرنڈر نہیں کریںگے۔ وادی کے مرد وزن، نوجوان، طلبا و طالبات ، بچہ بچہ بھارت کے خلاف سینہ سپر ہے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود کشمیر آزاد ہو کر رہے گا یہ خود بھارت کے مفاد میں ہے کہ وہ کشمیری قیادت اور پاکستان سے جموں وکشمیر پر مذاکرات کرے۔ ہم 30سال سے بھارت کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور یہ جنگ ہم جیتیں گے۔
یہ خیالات تو آزادی پسند کشمیری قائدین کے ہیں مگر اب بھارت نواز کشمیری لیڈر بھی حریت پسندوں کی سیاسی وحربی یلغار کے پیش نظر نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے بھارت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرے۔ سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر بھارت میں ضم ہوا نہ اس کا حصہ ہے۔ اس مسئلے کا کوئی حل کشمیریوں کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ ادھر خود بھارت میں بھی سول وعسکری سطح سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بھارت کشمیر کی جنگ ہار چکا۔ اسے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا ہی پڑے گا۔