اسلام،پاکستان اور جاتی امراء کی محفل

December 04, 2017

کیسی کیسی شان والے لوگ گزر گئے ، کیسی ان کی آن تھی۔ مخالفت بھی کرتے بڑی آن کے ساتھ، مفاہمت کرتے تو شان کے ساتھ،سیاست کی توہمیشہ نظریات کی، پاکستان کے مفاد کی، عوا م کی، جمہوریت کی خاطر جانیں تک قربان کردیں، سولی چڑھ گئے اُف تک نہ کیا، کیا وقار تھا کہ مخالفین کو للکارتے تو گویا سینے پر مونگ دل دیتے مگر مجال ہے کہ کسی کی روح کو چیرا ہو، مجال ہے کسی کے گھر میں جھانکا ہو، بہو بیٹیوں کی عزت کرتے، حفاظت کرتے، کسی کی ذات پر کبھی کیچڑ نہیں اُچھالا، احتجاج بھی کیا تو بڑے وقار سے، ایک سوچ نظر آتی تھی، ایک فکر محسوس ہوتی تھی، سینے پر گولیاں کھائیں تو پیچھے کوئی مقصد تھا۔ (اگرچہ ہر احتجاج کے پیچھے چھپے مقاصد کا پردہ بعد میں ہی اٹھا)۔ سازش کس نے کی، اس کا ملک کو کیا نقصان ہوا یہ ہماری تاریخ کی المناک داستانیں ہیں مجھے یاد نہیں پڑتا(ماسوائے تحریک ختم نبوتؐ ) کہ کوئی تحریک ، احتجاج، دھرنا ایسا ہو جس کا مقصد بظاہر تو عظیم تھا مگر انجام کسی سازش کے سوا کچھ نہیں نکلا، پاکستان کا ماضی ایسی بے شمار تحریکوں، دھرنوں سے بھرا پڑا ہے جس کے بُرے اثرات ہمیشہ عوام کو ہی بھگتنا پڑے،کبھی قید کی شکل میں ، کبھی بھوک کی شکل میں، تو کبھی انتقام کی شکل میں۔ حال ہی میں ہمیں اسلام آباد اور لاہور کے دھرنوں سے جو واسطہ پڑا ہے قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ قومی املاک اور خزانے کا جو نقصان ہو ا سو ہوا مگر اس کے نتائج کو سمجھنا نہایت ہی ضروری ہے۔ جو بحران حکومت منٹوں میں ٹال سکتی تھی وہ ہفتوں پر محیط کرکے قوم کو جس عذاب میں مبتلا کیا گیا اس کی وجوہات کیا تھیں؟کون لوگ اس دھرنے کے سپانسر تھے اور وہ اس سے کیا سیاسی نفع حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ بحث جب حتمی نتائج تک پہنچتی ہے تو کسی ظفر الحق رپورٹ کی ضرورت نہیں رہتی اور دکھ ، کرب اور ملال کی بھیانک تصویر کے سوا کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس سازش کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ ایسا گھنائونا کھیل کسی ایک شخص کے ذہن کی اختراع نہیں ہوسکتا اور یہ ایسا معاملہ بھی نہیں کہ جسے نظرانداز کیا جاسکے۔ یقیناً یہ ایمان کا معاملہ ہے، دین کا معاملہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تشخص کی بات ہے۔یاد رکھئے جس دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا نے اٹھائی ہو یقیناً انسانی سازش اس کاکچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ آپ ظفر الحق رپورٹ شائع کریں یانہ کریں لیکن اس کھیل کے کرداروں کا سیاسی انجام شروع ہو چکا ہے۔ یہ بھی نظام قدرت ہے کہ کسی بھی قوم کے رہنما کاایک فیصلہ قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے یا اس رہنما کو سیاسی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔ آثار واضح ہیں، انجام نظر آرہا ہے ، حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اپنے وجود سے اب تک کے سب سے بڑے سیاسی بحران کا سامنا کررہی ہے۔ اینٹیں ایک ایک کرکے کھسک رہی ہیں۔ سب سے اہم مذہبی ووٹ بینک این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے بعد سے اب تک مسلسل ان کی جیب سے ایسے غائب ہو رہا ہے جیسے کرپشن کا پیسہ پاکستان سے غائب ہوا۔ آج پاکستان مسلم لیگ (ن) اللہ کی پکڑ میں نظر آرہی ہے۔ دین دار حلقے تیزی سے اس جماعت سے دور ہورہے ہیں، عید میلادالنبیؐ کی تقریبات سرکاری سطح پرمنانے سے ایمان والوں کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ جاتی امراء میں محفل میلاد کی پُررونق تصاویر اور میاں صاحب کے ہاتھوں تبرک کی تقسیم سے ایمان مضبوط نہیں ہوتے۔ کاش میاں صاحب نے اسی اندازمیں دوران اقتدار غریبوں کے منہ میں ایک نوالہ ڈالا ہوتا تو انہیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا ۔ معاف کیجئے گا جاتی امراء میں جگمگاتے قمقمے اور قریبی عزیزواقارب ، دوستوں کی محفل سجا کر یہ تاثر دینا کہ میاں صاحب غریبوں کا بڑا درد رکھتے ہیں یہ تصویر کشی اپنے آپ کودھوکہ دینے کی کوشش ہے۔ اس میں ایمان کی بجائے خوف کا تاثر زیادہ دکھائی دیتا ہے اوراس کی تشہیر، بات کچھ جچتی نہیں، ایمان دلوں میں ہوتا ہے ، غریب سے محبت تصاویر کی محتاج نہیں مگر میاں صاحب کو کون سمجھائے۔ آج پاکستان میں اہل اسلام کی حالت بھی جاتی امراء جیسی ہوگئی ہے محض دکھاوا ، دلوں میں بغض، سوچوں میں مفاد، رنگ برنگے جھنڈے لہرانے سے اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی۔ ایک دوسرے پر ناجائز فتوے اور اس کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا بھی کوئی اسلام نہیں ۔ اسلام کاتعلق تقویٰ سے ہے، تفرقہ بازی اور اس بنیاد پر معاشرے میں تقسیم مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔آج پاکستان اور اسلام کا تشخص بری طرح مسخ کیا جارہا ہے یہ آئے دن کی نئی نئی رنگ برنگی جماعتیں ،نئے نئے مذہبی سیاسی نعرے اور اس بنیاد پر لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرنا کہاں کا اسلام ہے۔ اقتدار کی خاطر جدوجہد کرنا ہرسیاسی جماعت اور شخص کا بنیادی حق ہے اور اس سے کوئی انکار بھی نہیں مگر ذاتی مفادات کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا کہاں کا اسلام اور کہاں کی سیاست ہے۔ آج پاکستان، اہل پاکستان دوراہے پر کھڑے ہیں، ان کے پاس لیڈر شپ نہیں، منزل کی تلاش میں سیاسی عطائیوں کو ہی رہبر سمجھ لیا گیا ہے۔ خدا را بچ جائیے اپنا ایمان بھی بچائیے، اپنا ملک بھی۔ کسی کھوکھلے نعرے لگانے والےاور بد زبان کو اپنا رہبر نہ سمجھیں۔ کسی گالی دینے والے کو اپنا روحانی یا سیاسی مرشد نہ بنائیں۔ اپنے ایمان پر پختگی سے قائم رہیں، کسی کے ایمان پر شک نہ کریں۔یہ دھرنے یہ احتجاج، یہ گولی لاٹھی کی سرکار اب نہیں چلے گی، یہ بقا کی جنگ ہے جو متحد ہو کر ہی جیتی جاسکتی ہے۔ پشاور زرعی یونیورسٹی کا سانحہ نوشتہ دیوار ہے، دہشت گرد گولیاں بھی برسا رہے ہیں اورکلمہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ یہ کیا تماشا ہے کوئی کلمہ گو اس طرح گولیاں نہیں برساتا،آپ ذرا غور سے سنئے گولیوں کی تھرتھراہٹ میں کلمہ پڑھتے دہشت گردوں کی آواز کو، اور پھر سنئے ایک مجاہد کی للکار کوجو جذبہ ایمانی سے سرشار دوران جہاد کلمہ شہادت پڑھتا ہے اور محسوس کیجئے اس کی گھن گرج کو۔ پھر سنئے ان دہشت گردوں کی ’’ کلمہ‘‘ پڑھتے آواز کو جو ان کی زبان کا ساتھ دیتی ہے نہ ایمان کا۔ پھر آپ کو محسوس ہوگا مسلمان کون ، کافر کون؟ آپ کیوں متحد نہیں ہوتے، کتنی بار لکھا کہ سیاسی دکانداری کا وقت ختم ہو چکا۔آ ج ہم نے اپنے ایمان کی حفاظت نہ کی تو خدانخواستہ ایک دن ہم بھی بھٹکتی قوموں کی فہرست میں کھڑے ہوںگے۔ بچ جائیے دشمن آپ کے گھروں میں آگیا اور ہم ہیں کہ اپنا ایمان بھی دائو پر لگائے بیٹھے ہیں۔ بلا تفریق سیاسی شعبدہ بازوں سے بچنے کا یہی وقت ہے، کوئی اپنے جیسا تلاش کرلیں جسے تصویر کشی کا شوق ہو نہ لنگر بانٹنے کی نمائش کا، کوئی ایسا ہو جو غریبوں کو اپنے سینے سے لگائے رکھے اور دکھ دردمحسوس کرے۔ جس کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہ ہو، اپنے گھر سے روٹی کھا کر آئے، شام کو اپنے گھر جا کر سوئے، جو ٹریفک جام میں اپنی قوم کے ساتھ دھکے کھائے، سرکاری نلکے سے پانی پیئے، جس کے گھر پر چراغاں سرکاری پیسے سے نہ ہو، وہ چراغاں کرے تو اپنی حیثیت کے مطابق، اسے کسی ٹویٹ کی ضرورت پڑے نہ تعویز کی۔ ہمارا لیڈر ایسا ہوتو بات بن جائے مگر یہاں تو بات بنانے اور دکھاوے کے لئے سو سو پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں۔ جاتی امراء میں مخیر قیادت کی نیاز مندی دیکھ کر خوب یاد آیا، جب جان لگی پھنسنے تو نیاز لگی بٹنے۔