یہ اندازِ گفتگو؟

December 19, 2017

طرز تکلم، الفاظ کا انتخاب اور لب ولہجہ نہ صرف کسی کی تعلیم و تربیت بلکہ شائستگی اور عقل و دانش کا غماز ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انداز بیاں تعلیم و تربیت میں خامی اور خبط عظمت کی علامت ہے ۔بات مدلل اور معقول ہو تو دھیما لہجہ زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے نہ کہ بلند آہنگی اور چیخ وچنگھاڑ۔دشنام کا جواب بھی تلخ نوائی ہی ہوتا ہے اور خاص طور پر ہمارے سماج کا چلن یہی ہے جس میں اب اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو سیاست دانوں کی طرف سے انداز گفتگو کی بدترین مثالیں ہمارے سامنے آ رہی ہیں۔قطع نظر اس کے کہ اسی طرز گفتگو کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی، کسی سے نہاں نہیں کہ ہمارے سیاست دانوں کے منہ سے آج کل ’’پھول‘‘جھڑ رہے ہیں۔ یہ روش تشویشناک ہی نہیں خطرناک بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں غلیظ الفاظ کا استعمال رواج پا رہا ہے بلکہ وہ ایک دوسرے سے بھڑنےسے بھی دریغ نہیں کرتے جیسا کہ سپریم کورٹ کے احاطہ میں عمران خان نااہلی کیس کے دوران ہوا۔اب ایک نظر ذرا سیاسی قائدین اور پارٹیوں کےملفوظات پر ڈالیں، عمران خان نے کہا ،میاں صاحب قومی مجرم اور بزدل آدمی ہیں کیا کبھی گیدڑ تحریک چلا سکتا ہے، سعد رفیق نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’عمران بزدل گیدڑ تحریک چلانے کے قابل نہیں ‘‘ پیپلز پارٹی نے عدلیہ کے فیصلے کے بارے میں ’’گل فشانی ‘‘ کی کہ ’’بابے نے ہر آمر کیلئے ڈنڈی ماری، قوم اس پر کیسے یقین کرے’’ن لیگ کہاں نچلی بیٹھتی ، بولی ’’کیا بابے کو حق ہے کسی کو گارڈ فادر یا سسلین مافیا کا خطاب دے‘‘۔بجا کہ معاشرے میں اخلاقی اقدار روبہ زوال ہیں پر ایسی بے لگامی لائق نفرین ہے ۔سیاست دانوں کو اب یہ سوال خود سے پوچھنا چاہئے کہ کیا اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات میں اس انداز گفتگو کی اجازت ہے، کیا ہمارے اسلاف اور سیاسی اکابرین نے ایسی زبان استعمال کی۔سیاست دانوں کے لئے ناگزیر ہے کہ اپنا لب ولہجہ درست کریں ورنہ اجتماعی طور پر عدم برداشت بڑھ جائے گی۔سیاست دانوں سے بزبان غالب یہی پوچھا جا سکتا ہے کہ ’’ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے، تمہی کہو کہ یہ انداز ِ گفتگو کیا ہے ‘‘