قومی ایکشن پلان مزید توجہ کا متقاضی

December 20, 2017

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جب قومی ایکشن پلان پر مزید توجہ دینے کی ضرورت اجاگر کی جائے تو مفہوم اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ 20نکات پر مشتمل اس منصوبے کے متعدد پہلو کماحقہ توجہ سے تاحال محروم ہیں۔ قومی سلامتی کے اعلیٰ ترین ادارے کا اجلاس پیر کے روز وزیراعظم شاہد خان عباسی کی صدارت میں اسلام آباد میں منعقد ہوا اور اس میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، مشیر قومی سلامتی ریٹائرڈ جنرل ناصر خان جنجوعہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی، ایئر چیف مارشل سہیل امان اور اعلیٰ حکام شریک تھے۔ مذکورہ جائزہ جس وقت لیا جارہا تھا، اتفاق سے وہ آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد سول اور فوجی قیادت کے اتفاق رائے سے قومی ایکشن پلان کی تیاری کے تیسرے سال کی تکمیل کا وقت تھا۔ تین سال قبل جب یہ منصوبہ بنا تو اسے سب ہی نے دہشت گردی کے خاتمے کے قومی عزم کے طور پر دیکھا مگر پچھلے تین برسوں کے دوران بارہا یہ محسوس کیا گیا کہ کہیں نہ کہیں تامّل اور سست روی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ایوان وزیراعظم سے جاری کئے گئے بیان میں قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد کے حوالے سے بس اتنا کہا گیا ہے کہ پالیسی امور اور ادارہ جاتی اصلاحات زیادہ توجہ کی متقاضی ہیں۔ ادارہ جاتی اصلاحات کے جز کے طور پر انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے (نیکٹا) کو موثر بنانے کی ضرورت ہے، ایک مشترکہ انٹلی جنس ڈائریکٹوریٹ تشکیل دیا جانا ہے اور مختلف اقدامات پر عملدرآمد کے لئے ایک مربوط میکنزم کو فعال کرنا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان امور پر تین برس گزرنے کے باوجود وہ توجہ نہیں دی گئی جو دی جانی چاہئے تھی۔ اسی طرح مدرسہ ریفارمز کے معاملات بھی سرد خانے کی نذر محسوس ہوتے ہیں۔ فاٹا اصلاحات تاحال سیاسی موشگافیوں کا موضوع ہیں۔ جس ملک میں دھرنے دیئے جانے اور حکومتوں کو چلتا کرنے کے دعوے روز مرہ کے معمولات کا حصہ بن چکے ہیں وہاں اس نوع کی باتیں غیر متوقع تو نہیں مگر کوئی بھی ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ برسراقتدار حکومت دبائو کی اس کیفیت کو جواز بناکر انتہا پسندی کے سدباب کے لئے واضح بیانیہ عوام اور دنیا کے سامنے لانے یا مربوط حکمت عملی اختیار کرنے میں تاخیر کرے۔ نیشنل سیکورٹی پالیسی پر کئی برس سے کام ہورہا ہے مگر وہ اپنے واضح خدوخال کے ساتھ تاحال سامنے نہیں آسکی۔ وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری مشیر قومی سلامتی کے سپرد ابتدا ہی میںکردی گئی تھی اور ان سے کہاگیا تھا کہ وہ تمام اسٹیل ہولڈرز کو اعتماد میں لیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس باب میں ایک مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ مگر اس کے بعد یہ معاملہ کیوںآگے نہیں بڑھا اس سوال پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس باب میں جو بات عام آدمی کی سطحپر محسوس کی جاتی رہی، وہ یہ ہے کہ رینجرز کو اختیارات دینے کا سوال ہو، بعضمقامات پر امن دشمنوں کے خلاف کارروائی کا مسئلہ یا مبینہ دہشت گردوں کے مقدمات تیزی سے سماعت کرنیوالی عدالتوں میں لے جانے سے متعلق معاملات، ان میں بعضرکاوٹیںآتی رہی ہیں۔ عوام کے بنیادی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سمیت کئی خدشات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے مگر اس بات کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں کہ ملک اس وقت حالت جنگ سے دوچار ہے اور غیرمعمولی حالات میںغیرمعمولی اقدامات نہ صرف بروئے کار لائے جاتے ہیں بلکہ بروقت روبہ عمل لانے کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر نقصانات کا اندیشہ رہتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹارگٹڈ آپریشنوں، انٹلیجنس ایجنسیوں کی فعالیت، معلومات کے تجزیے کے مرکزی مقام کے تعین اور تیزی سے سماعت کرنے والی عدالتوں کی اہمیت اپنی جگہ۔ مگر جب تک دہشت گردی کے بنیادی اسباب یعنی غربت، بے روزگاری، سماجی و معاشی بے انصافی، کرپشن اور پسے ہوئے طبقات کے استحصال پر قابو نہیں پایا جائیگا اسٹیٹس کو کاعفریت اس ملک کو ایک یا دوسرے طریقے سے اپنی گرفت میں لیتا رہیگا۔ اس عفریت پر قابو پانا مشکل نہیں۔ وسائل اور حکومت پر تصرف والے حلقے عوام پر بالواسطہ ٹیکس مسلط کرنے کی بجائے خوشدلی سے خود براہ راست ٹیکس دینے پر آمادہ ہو جائیں اور کرپشن کی روک تھام کیلئے دوست ملک چین کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں تو برسوں میں نہیں، دنوں میں بہت کچھ درست ہو جائیگا۔