خدا کے کھیل

December 24, 2017

دوہزار چودہ کے دھرنوں کے دنوں میں عمران خان اور ان کی پارٹی میڈیا کی تمام تر توجہ حاصل کررہی تھی اور جس وقت بھی آپ کوئی نیوز چینل لگائیں آپ کو عمران خان سے متعلق ہی خبر نظر آتی تھی جس کے باعث پاکستان کے بچے بچے کو عمران خان کی کی گئی تقریریں رٹ گئیں اور اُن کی کہی گئی بات لمحوں میں زبان زد عام ہونے لگی کیونکہ پاکستان کے عوام کا ایک مزاج ہے کہ وہ حکومت مخالف بات یا خبر پر جلد اور آسانی سے یقین کرلیتے ہیں اور اسی طرح کی خبر دیکھنے اور پڑھنے میں زیادہ تر دلچسپی رکھتے ہیں لہذا عمران خان اور میڈیا نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور زیادہ سے زیادہ حکومت مخالف بیانات دئیے اور دکھائے تاکہ ریٹنگ کے اس دور میں کسی بھی طرح پیچھے نہ رہا جائے۔ نواز شریف کی حکومت کے لیے یہ ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرگیا کیونکہ ٹی وی چینلز اور اخبارات نے تقریباً ہی حکومت کے ترقیاتی کاموں اور دیگر خبروں کو نظر انداز کردیا تھا جس کی وجہ سے حکومت مخالف فضا تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی کیونکہ حکومت کا موقف عوام الناس تک نہیں پہنچ رہا تھا جب کہ حکومت مخالف جھوٹا سچا پروپیگنڈہ دن میں دس دس دفعہ ٹی وی پر دکھایا جاتا تھا ۔ یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا اور حکومت کی مقبولیت آسمان سے زمین کی طرف جانے لگی اس لئے نہیں کہ حکومت کچھ غلط کررہی تھی بلکہ اس لیے کہ وہ جو کچھ بھی اچھا کررہی تھی اُس کی ترویج میں حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا تھا اور اگر کچھ چینل حکومت کے اچھے کاموں کی خبر دے بھی رہے تھے تو انھیں شدید ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑرہا تھا لہذا اس دباؤ کے باعث زیادہ تر چینلز نے نواز شریف حکومت کی اچھی خبروں کو چھُپانا اور مخالف خبروں کو زیادہ سے زیادہ نشر کرنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ کسی بھی تدبیر سے رُک نہ سکا اور نواز شریف حکومت کے خلاف ان خبروں یا یوں کہوں کہ جھوٹی خبروں کا مقابلہ تنہا مریم نواز شریف اپنے ٹوئیٹر ہینڈل سے کرتی رہیں۔ جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا تھا نواز شریف کی حکومت کی تشویش میں اضافہ ہورہا تھا کیونکہ بہت کچھ اچھا کرنے کے باوجود صرف چند غلطیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا تھا اسی دوران پانامہ لیکس نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور حکومت مخالف خبریں اور شدت سے عوام الناس تک پہنچائی جاتی رہیں اور ملک کے وزیر اعظم کو ایک وِلن بناکر پیش کیا جاتا رہا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جو بھی ان کے خلاف بات کرتا ہے وہ بہت بہادر نڈر اور ہیرو ہے اس فضا کو میڈیا سوشل میڈیا اور جلسے جلوسوں میں ترویج دی گئی۔ کہتے ہیں کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی اور جب وہ حد سے بڑھنے لگے تو خدا دخل دیتا ہے تاکہ اُس حد کو نکیل ڈالی جاسکے یہ ہی کچھ نواز شریف کے کیس میں ہوا کہ جب جھوٹ اور لغو بازی کا پروپیگنڈہ حد سے گُزرا تو خدا نے نواز شریف کے لیے راستہ نکالا تاکہ نواز شریف کی آواز بھی عوام الناس تک پہنچ سکے اور وہ دونوں طرف کا موقف سُن کر جھوٹ اور سچ کے درمیان فیصلہ کرسکیں۔ اگر ہم دوسرے نظریے سے سوچیں تو حقیقتاً پانامہ لیکس نواز شریف پر ایک زحمت نہیں بلکہ رحمت بن کر آئیں کیونکہ ان لیکس کے بعد نواز شریف کو موقع ملا کہ وہ اپنا موقف عوام کو بتاسکیں اور صبح دوپہر شام عمران خان کے گُن گانے والے ٹی وی چینلز نواز شریف کو بھی ٹی وی اسکرین پر کچھ وقت دیں بصورت دیگر نواز شریف کی بطور وزیر اعظم خبریں ثانوی حیثیت اختیار کرچکی تھیں۔ اور پھر پانامہ کیس شروع ہوا جہاں روزانہ صبح نو بجے سے بارہ بجے تک عمران خان اور نواز شریف کی برابر کی آوازیں آنے لگیں نواز شریف کے لوگوں کو بھی اُتنا ہی وقت ملنے لگا جتنا عمران خان کے لوگوں کو مل رہا تھا اور عوام تک دونوں کا موقف پہنچنے لگا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور جو کچھ نیوز چینل دکھاتے رہے اُس کا اثر سوشل میڈیا پر بھی نظر آنے لگا وہ نواز لیگ جس کا سوشل میڈیا پر کوئی وجود نہیں تھا اور پی ٹی آئی ہر طرف چھائی ہوئی تھی اچانک ایک بہت بڑی اور منظم طاقت بن کر اُبھری اور نواز شریف کے حق میں بھی اُتنا ہی مواد نظر آنے لگا جتنا کہ عمران خان کے حق میں مقابلے کی فضا برابری پر آگئی اور اس کے ساتھ عمران خان پر بھی الزامات کی بوچھار ہوگئی جیسے کہ نواز شریف پر تھی۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ اور آگے بڑھتا گیا اور پانامہ کیس کے نتیجے میں نواز شریف کو ایک ایسے الزام پر نااہل قرار دے دیا گیا جس کو عقل مشکل سے ہی تسلیم کرتی ہے ۔نواز شریف اب وزیراعظم کی کُرسی سے اُتر کر ایک مظلوم سیاسی رہنما بن گئے جی ٹی روڈ پر لاکھوں لوگ اُن کے قافلے کے ساتھ تین دن تک چلتے رہے اور میڈیا پل پل کی خبر نشر کرتا رہا ذرا سوچئے کیا وزیر اعظم نواز شریف کے لیے یہ سب ممکن تھا ؟ نہیں کیونکہ ہمارےعوام کا مزاج ہے کہ یہ سچا اُسی کو مانتے ہیں جو اقتدار میں نہ ہو اور جو اقتدار میں ہو اُسے وہ اہمیت نہیں دیتےحالانکہ خود ہی منتخب کرکے لاتے ہیں ،لہذانواز شریف کو جیسے ہی وزارت عظمی سے دھکیلا گیا وہ ایک ایسا لیڈر بن گیا جو عوام کے دلوں پر راج کرتا ہے ،خود مریم نواز جو کل تک صرف وزیر اعظم کی بیٹی کے طور پر جانی جاتی تھیں وہ بھی ایک بہت بہادر اور بڑی لیڈر بن کر ابھریں آج وہ وزیر اعظم کی بیٹی نہیں بلکہ ایک مظلوم باپ کی حمایت میں کھڑی ہونے والی بے خوف اور نڈر لیڈر ہے جسے نہ زندان سے ڈر لگتا ہے نہ عمران سے۔ آج اُس کے لیے دنیا بھر کا میڈیا کہتا ہے کہ یہ عورت مخالفین کے لیے ایک بڑا خوف بنتی جارہی ہے اور جلد ہی اپنے مخالفین کو بہت پیچھے چھوڑ کر سیاست کے بڑے بڑے میدان فتح کرلے گی۔ آج سے دوسال پہلے ٹی وی چینلز کی منتیں کرکے وزیر اور مشیر اپنی خبریں چلواتے تھے مگر گزشتہ چند مہینے میں کہانی پلٹ گئی اب میڈیا وزیروں کی منت کرتا ہے کہ پانچ منٹ دے دیں آج صبح سے لیکر شام تک نواز شریف کے ترجمان ٹی وی اسکرینز پر چھائے ہوتے ہیں اور ہیڈلائنز ان ہی کی خبر سے شروع ہوتی ہیں عدالتوں کے چکر لگانے والے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی آمد سے ایک گھنٹے پہلے سے ٹی وی چینلز لائیو دکھانا شروع کرتے ہیں گاڑیوں کارنگ کپڑوں کا رنگ یہاں تک گاڑیوں کے رمز اور ٹائرز تک بار بار دکھائے جاتے ہیں اور رات تک یہ ہی سلسلہ چلتا ہے نواز شریف کی مسکراہٹ تک بریکنگ نیوز بن جاتی ہے تو آپ بتائیے یہ ناکامی ہے یا کامیابی نواز شریف کو لوگوں کے دلوں سے نکلوانے کا خواب دیکھنے والے نواز شریف کو کیا نکال پائے بلکہ نواز شریف کی بیٹی کو بھی اُتناہی بڑا لیڈر بنادیا جتنا نواز شریف ہے جو چاہتے تھے کہ نواز شریف مائنس ہوجائے انھوں نے اپنی بیوقوفیوں سے نواز شریف کو بجائے مائنس کے ڈبل کردیا اب آپ بتائیے یہ خدا کا فیصلہ نہیں تو اور کیا ہے آج کا نواز شریف دو سال پہلے کے نواز شریف سے کئی گناہ طاقتور اور عوام کو محبوب ہے عدالت نے جس بھٹو کو قتل کیا وہ بھٹو آج تک زندہ ہے اسی طرح عدالت نے جس نواز شریف کا سیاسی قتل کرنے کی کوشش کی وہ نواز شریف بھی زندہ اور تابندہ رہے گا مگر شاید عمران خان کی سیاست کے لیے اتنی گہری بات سمجھنا مشکل ہوگی کیونکہ ابھی تک عمران خان پیچھے کی سیاست کررہے ہیں اور لوگوں کے گڑے مردے اکھاڑنے میں مصروف ہیں جبکہ نواز شریف آگے کی سیاست کررہے ہیں اور جب تک عمران خان کو اس کھیل کی سمجھ آئے گی پانی اُن کے سر سے بہت اونچا ہوچکا ہوگا۔