عشق اور اطاعت کی یکجائی

January 11, 2018

حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ایک امتی کے لئے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار میں حاضری کے لمحات اس کی زندگی کا حاصل ہوتے ہیں۔ اس کائنات کے خالق و مالک، اللہ وحدہ لاشریک کے بعد کائنات کی سب سے بڑی، مقدس ترین، محترم ، متبرک ہستی، خاتم النبیین، رحمتہ اللعالمین کی عظمت و شان سمجھنا اور آپ کے فضائل و تعریف بیان کرنا عام انسان تو ایک طرف بڑے بڑے عالموں، دانشوروں، فلسفیوں، سخنوروں کے دائرہ ہائے فہم و ادراک اور قوتِ بیان سے باہر ہے۔ نبی ٔ کریم ﷺکی شان بیان کرنے میں انسانوں کی محدود صلاحیت اور عجز لسانی کو گیارہویں صدی ہجری کے ایک ولی اللہ اور محدث شاہ عبدالحق محدث دہلوی (وفات۔1642ء) نے ان الفاظ میں بیان کرکے گویا سب عاجزوں کی ترجمانی کردی ہے۔
لا یمکن الثنا کما کان حقہ ٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
مسجد نبوی اس کرۂ ارض پر وہ متبرک مقام ہے جسے اللہ کے آخری نبیؐ نے انسانوں کی روحانی تربیت، دنیاوی فلاح اور آخرت میں نجات کے لئے رہنمائی کا مرکز بنایا۔ یہاں نوعِ انسانی کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلانے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لئے ایک عظیم الشان تمدن و تہذیب کی بنیاد رکھی گئی۔ اسلام، ایمان اور مرتبۂ احسان سے آگہی عطا فرمانے، اللہ کی عبادت کے طریقے سکھانے، تزکیہ نفس کے مختلف مراحل سے واقف کروانے، اعلیٰ اخلاق کی تعلیم و تربیت عطا فرمانے کے ساتھ معلم اعظم، ہادی عالم نے انسانوں کو بتایا اور سمجھایا کہ ریاست کیسے چلائی جائے گی۔ حکمران اور عدلیہ کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔ حکومت کے نمائندے (گورنر، وزیر وغیرہ) اور عمال حکومت (سرکاری ملازمین) اللہ کو جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنے فرائض کس طرح ادا کریں گے۔ معاشرے کی اکائی خاندان کا ادارہ کیسے تشکیل پائے گا۔ معاشرے میں ہر ایک فرد کا کردار کیا ہوگا۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات وقت کے ہر دور اور دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسانوں کے لئے دائمی رہنما ہیں۔
اسوۂ رسول سے عملی طور پر یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول و اولی الامرمنکم کے مطالب کیا ہیں۔۔۔۔؟ اور ان کے دائرہ ہائے عمل کہاں تک وسیع ہیں۔ تاجر (موجودہ دور میں صنعت کار اور خدمات فراہم کرنے والے بھی ان میں شامل ہیں) کے فرائض اور حقوق کیا ہیں۔ رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، دوسروں کے مال و جائیداد پر ناجائز قبضے کتنے مضر اور مہلک ہیں۔ معاشرے کے خلاف ان جرائم اور انسانوں کے خلاف ان خباثتوں کے مرتکبین کو آ خر کار کن سزاؤں کا سامنا ہوگا۔ حکومت، عدلیہ، معیشت، تجارت، معاشرے کے طاقتور عناصر کو ہدایات اور تنبیہہ کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کے مختلف شعبوں خاص طور پر گھرکو محبت، حسن سلوک ، باہمی احترام اور خوشیوں کا مرکز بنانے کے لئے رہنمائی عطا کی گئی۔ میاں بیوی پر ایک دوسرے کے کیا حقوق و فرائض ہوں گے۔ مرد بحیثیت شوہر، بطور سربراہ خاندان اپنے فرائض و ذمہ داریاں کیسے ادا کرے گا۔ شوہر کے گھر میں بیوی کا احترام اور اکرام کس طرح کیا جائے گا۔ خاندان کے دیگر اراکین اور بیوی کے حقوق کے درمیان توازن کیسے قائم کیا جائے گا۔ شریعتِ اسلامی نے واضح کیا ہے کہ بحیثیت بیوی عورت کی کفالت اس کے شوہر کے ذمہ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ اگر عورت ملازمت یا کاروبار کے ذریعے خود بھی کمانے والی (Earning Hand) ہو تو اس کی آمدنی میں شوہر کا حق کیا ہوگا؟
اولاد کو والدین کے ادب اور ان کی خدمت کی بار بار تاکید ہوئی۔ والدین کو یہ ہدایت کہ اولاد کی اچھی تربیت کی جائے، ان کے درمیان امتیاز نہ برتا جائے۔ خاص طور پر بیٹیوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی تاکید کی گئی۔ اس راز سے پردہ کشائی ہوئی کہ بیٹیوں کی اچھی پرورش اور اچھی تربیت والدین کے لئے دوزخ سے نجات اور نتیجتاً جنت میں داخلے کا ذریعہ بن جائے گی۔ ہر مسلمان مرد اور عورت پر حصولِ علم فرض قرار دیاگیا۔ پڑوسیوں کی مسلسل خبرگیری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور پڑوسیوں کو سالن کی مہک تک سے ایذا نہ پہنچنے دینے کی ہدایت کی گئی۔ مکان بنانے والوں کو تاکید کی کہ تمہارے مکان سے پڑوسی کے مکان میں آنے والی روشنی اور ہوا متاثر نہ ہو۔ شہر میں راستوں کی پیمائش، راستہ چلنے کے آداب، گھروں اور آبادیوں کو صاف رکھنے کا حکم، آبادی کے لئے صحت کے تحفظ اور بیماریوں کی موثر روک تھام کے لئے اقدامات کیے گئے ۔ شہروں کو ایک حد سے زیادہ وسعت نہ دینے یعنی شہر کے رقبے اور آبادی کو کم رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ ماحول کے تحفظ کے اہتمام، شجر کاری کی ترغیب، حسن معاشرت کے لئے پڑوسیوں، رشتہ داروں، احباب کے ساتھ اچھے تعلقات اور ان کی طرف سے ہونے والی ناگوار باتوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین نے ماحولیاتی تحفظ اور حسن معاشرت کے لئے راہیں ہموار کی گئیں۔
تعلیمات نبویؐ سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے کہ سیاست، صحافت اور معاشرت میں کن اعلیٰ اصولوں اور کن ضابطوں کی پاس داری اور پابندی ضروری ہے۔ کسی قوم کے ساتھ جنگ کی نوبت آجائے تو جنگ پر آمادہ دشمن کی جان، مال آبرو اور ان کے بچوں ، بوڑھوں، عورتوں کا کس طرح خیال رکھا جائے گا۔ جنگ کے دوران درختوں ، فصلوں، مویشیوں وغیرہ کے تحفظ کے لئے کیا کیا جائے گا؟
ان سب امور کے ساتھ ساتھ انسان کو روحانی تقاضوں سے آگہی عطا فرمانے اور روحانی ضروریات کی تکمیل کے لئے قابل عمل تعلیمات کا مکمل اور موثر نظام۔ یہ ہے زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتی ہوئی تعلیمات نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک ہلکی سی جھلک۔ ان میں سے اکثر تعلیمات سے نوازے جانے کا مرکز مسجد نبویؐ ہے۔
حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے کروڑوں امتی مسجد نبوی میں حاضری، روضہ اقدس پرسلام پیش کرنے اور اس مسجد میں صلوٰۃ کے قیام کی تمنا رکھتے ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں کی اس دلی آرزو کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ دنیا بھر سے ہر خطے، ہر نسل، ہر لسان سے تعلق رکھنے والے امتی حضور اکرمﷺ کے روضہ اقدس پر حاضر ہو کر الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہﷺ عرض کرکے اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہوتے ہیں۔
بیت اللہ شریف میں آمد اور مسجد نبوی میں حاضری کے وقت سب یکسو ہوتے ہیں۔ ہر فرد خود کو امت مسلمہ کا رکن تصور کرتا ہے۔ یہاں سے واپسی پر یہی جذبہ برقرار رہے تو امت ِ مسلمہ آج بھی دنیا کی محترم، معتبر اور طاقتور اُمت بن جائے۔ ہر دور کی طرح آج کے امتی بھی عشقِ رسول ؐسے سرشار ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان میں کتنے تابعدار ہیں۔ بغیر اطاعت، بغیر اتباع عشق محض ایک ذاتی جذبہ ہے۔ اس جذبے کو اطاعتِ رسول کے ساتھ یکجا کرکے اجتماعی قوت اور توانائی میں تبدیل کردینا پوری امت کی طاقت بن جائے گا۔ عشق و اطاعت کی یکجائی کی برکتو ں سے ہم میں کوئی ضعف نہیں رہے گا۔ بلکہ امت مسلمہ ایک مرتبہ پھر اپنے زمانے اپنے صبح و شام خود پیدا کرنے والی امت بن جائے گی۔
ایک بہت خوش آئند فیصلہ
شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کی ہدایت پر مسجد نبوی میں نمازوں کی امامت ریاض الجنۃ سے باہر واقع محراب کے بجائے ریاض الجنۃ میں واقع محراب سے ہوگی۔ اتوار 7جنوری 2018ء ، سعودی عرب میں 20ربیع الثانی 1439ھ کو نمازِ ظہر سے اس فیصلے پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ سعودی عرب میں اس فیصلے کو بہت زیادہ سراہا گیا۔عوام نے شاہ سلمان اور ولی عہد کو بہت دعائیں دیں۔ میری خوش قسمتی کہ اتوار 7جنوری کو میں بھی مدینہ منورہ میں موجود تھا اور ان تاریخی لمحات میں لاکھوں نمازیوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی مسجد نبوی میں صلوٰۃ کے قیام کا شرف ملا۔ الحمدللہ والصلوٰۃ والسلام علی محمد رسول اللہ.