بے داغ نگراں وزیراعظم لائیں گے، قادری کو جلسے کی اجازت عدالت نے دی، وزیراعظم

January 20, 2018

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ بے داغ نگراں وزیراعظم لائینگے،قادری کو جلسے کی اجازت عدالت نے دی ،وزارت عظمٰی کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا،طے کرنا ہے غیر ملکی پاکستان میں سیاست کرسکتا ہے،ایگزیکٹ کے خلاف کوئی نیا ثبوت آیا تو کارروائی کرینگے،سیاسی بھونچال صرف میڈیا میں ہے۔ ملک میں ایسےمعاملات نہیں ،الیکشن جولائی سےپہلے نہیں ہوں گے،انتخابات قریب ہیں ہر سیاسی جماعت اپنی جگہ بنانےکی کوشش کررہی ہے،ہمارا موقف واضح ہےہم نےاپنی کارکردگی پر انتخابات میں جانا ہے ،ہماری حلیف جماعتیں آج بھی ہمارےساتھ ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ ٹویٹ پالیسی ہوسکتاہے، دہشتگردی کےخلاف جنگ میں پہلےبھی ہمارا تعاو ن تھااورآج بھی ہے،افغانستان میں امن کے قیام کیلیے جو بھی تعاون ہوسکےگا کریں گے ،ہم سےزیادہ دنیا میں امن کا خواہش مند اور کوئی نہیں،ہم نےاپناموقف بڑی وضاحت سےامریکا تک پہنچا دیا ہے،ہماری جماعت کا معاملہ تھا ہمارے ارکان نے اپنے وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا،جن چیزوں سےابہام پیداہو اس سے سیاست کو فائدہ نہیں پہنچتا،چودھری نثار ، پرویز رشید نے بیانات دیے جو اختلاف کی صورت میں سامنےآیا،اختلافات ہرگھر اورہرجماعت میں ہوتے ہیں،معاملہ ختم ہوگیاہےاگر نہیں ہواہے تو ہمارا کام ہےصلح صفائی کرانا۔میں یہ بتانے کوئٹہ گیاتھا کہ سیاست میں اسطرح کے محرکات بہتر نہیں ہوتے، ،پارلیمنٹ کے ممبران کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے،مجھے ارکان نےبتایا کہ ہم پر بڑا دباؤ ہے، کالز آرہی ہیں،بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس کےمحرکات معلوم کرنےکوئٹہ گیا،ہماری حکومت نےاتنے کام کیے کہ گزشتہ 65 سال میں نہیں ہوئے،لعن طعن کرنیوالوں کومعافی مانگنی چاہیے ورنہ انہیں انتخابات میں جواب مل جائیگا ،ممبرا گرپارلیمنٹ پر لعن طعن کرےتو اسکا مطلب ہے کہ وہ خودپر لعن طعن کررہاہے،طاہرالقادری کےحکومت گرانےسےمتعلق بیان کا نوٹس لیں گے،کوئی پارلیمنٹ کا ممبر ہوتو اس کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے،یہ مسئلہ میرےذہن میں تھاکہ کوئی غیرملکی شہری حکومت مخالف بیانات دےسکتاہے،از خودنوٹس بھی ہوتاہے پارلیمنٹ کیخلاف بیان پربھی ازخود نوٹس ہوسکتا ہے، طاہرالقا دری جو کچھ کررہےہیں وہ نظر آرہاہےوہ سڑکوں پر ہیں،اسٹیج سےپارلیمنٹ سےمتعلق بھی متنازع بیانات دیےگئےجس کاایوان نےنوٹس لیا ہے،عدالت نےطاہرالقادری کو جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی،اسٹیج پر طاہر القادری اکیلے نہیں تھےبڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ بھی انکےساتھ تھی،طاہر القادری کانام ای سی ایل میں ڈالنےسےمتعلق کوئی بات نہیں ہے،میرے علم کےمطابق طاہرالقادری کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں،وائٹ کالرکرائمز ،سائبرکرائمز کو کرائم اسٹیبلش کرنادنیا بھرمیں مشکل ہوتا ہے،احتجاج کےدوران فائرنگ کی تحقیقات ہورہی ہیں،ہماری پوری کوشش ہےکہ بچوں سے زیادتی کےملزمان کو جلد گرفتار کریں،سی سی ٹی وی وڈیو موجود ہےپھر بھی کچھ مشکلات ہیں،قصور میں پولیس کےاعلیٰ افسران روزموجود ہوتے ہیں، امید ہے کہ دستیاب شواہد پر قصور واقعے کا ملزم پکڑا جائے گا۔طلعت حسین کے سوال کہ زینب کیس نے سارے ملک کو خلفشار میں مبتلا کیا ہوا ہے، بطور وزیراعظم آپ کے پاس اس کیس پر تازہ ترین کیا ہے؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: یہ بڑا دردناک واقعہ ہے اسے politicize نہیں کرنا چاہئے، پنجاب پولیس کوشش کررہی ہے، جتنے وسائل ان کے ہیں استعمال کررہی ہے، جوا نفارمیشن میرے پاس ہے کل شام تک تو بہت امید ہے کہ انشاء اللہ اس شخص کو یا ان لوگوں کو جلد ہی پکڑنے میں کامیاب ہوں گے،اس میں کافی پیشرفت ہوئی ہے، DNA based evidence ایسا ملا ہے جس کے linkages ہیں اور اس کی بنیاد پر کچھ گرفتاریاں ہوئی ہیں تو مجھے امید ہے کہ اس شخص کو جلد ہی پکڑ کر قانون کے حوالے کیا جائے گا۔ تقریباً روزانہ کی بنیادوں پر چیف منسٹر سے میری بات ہوتی ہے اور وہ personally supervise کررہے ہیں، پولیس کے اعلیٰ افسران قصور میں چوبیس گھنٹے موجود ہیں، آئی جی بھی دن کا بڑا حصہ وہیں گزارتے ہیں، چیف منسٹر بھی کئی وزٹس کرچکے ہیں، میں نے پہلے بھی بتایا کہ جو scientific evidence تھا ، ایک آپ نے دیکھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مل گیا، پورا حدود بھی ٹریک ہوگیا، بڑی وسیع پیمانے پر ڈور ٹو ڈور بھی سرچ کی گئی ہے، مجھے اب کافی امید ہے کہ جو evidence دستیاب ہے اس سے یہ آدمی پکڑا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سیریل کرمنل ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، ڈی این اے میچ جو پچھلے victims تھے ان کے ساتھ بھی ڈی این اے میچ ہوگیا ہے، ریاست کے پورے وسائل استعمال کیے جارہے ہیں، آپ دیکھیں ایک ویڈیو بھی موجود ہے، فوٹو بھی موجود ہیں، اس کے باوجود ہمیں مشکلات آرہی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مس ہینڈلنگ دیکھیں جو وہ واقعہ ہے جہاں پر فائرنگ ہوئی ہے اسک و آپ مس ہینڈلنگ کہیں یا جو بھی کہیں مگر وہ بھی facts establish کرنے کی ضرورت ہے، جہاں تک اس کرمنل واقعہ کا تعلق ہے اس میں پورے وسائل استعمال کیے جارہے ہیں، پوری کوشش کی جارہی ہے، بڑے بڑے developed ممالک میں بھی یہ سیریل کلرز کئی کئی سال نہیں پکڑے جاتے لیکن یہاں مجھے بہت امید ہے کہ انشاء اللہ ہم اس شخص کو جلد پکڑلیں گے۔میزبان طلعت حسین کے سوال کہ ایک اور نیوز آف دا ڈے کی ہم بات کرلیتے ہیں،چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے ایگزیکٹ اسکینڈل کی بات کی، چار دن سے دنیا بھر کے اخباروں کے اندر یہ اسکینڈل چھپ رہا ہے، جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل ہے، بی بی سی رپورٹ کررہی ہے مفصل انداز سے، چیف جسٹس کہہ رہے ہیں ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے، انہوں نے ایف آئی اے ٹیم بنانے کا کہا ہے، آپ کے نزدیک یہ اتنا بڑا ایشو ہے، is this a set back پاکستان کے امیج کے لئے یا نہیں؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: یہ آج کا ایشو نہیں ہے کافی پرانا چلاآرہا ہے، بدقسمتی سے جو وائٹ کالر کرائم ہے جس طرح کا کرائم یہ ہے یعنی سائبر کرائم ایک قسم کا سمجھیں کہ انٹرنیٹ پر جاکر یہ کرائم کیا گیا، دنیا میں کہیں بھی اس کوestablish کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے، ہمارے قوانین بھی lake کرتے ہیں اس قسم کے کرائم کو، اس کے خلاف ایکشن لینے میں، evidentiually value کیا ہے۔ طلعت حسین: بڑی انکوائری ہوئی تھی، ایف آئی اے نے باقاعدہ evidence create کیا اس کے بعد جو پولیس افسر ہیڈ کررہا تھا اس کے گھر پر گرینیڈ کا اٹیک بھی ہوا پھر اسے واپس جانا پڑا، اس میں تو بڑی لمبی تفصیل ہے اور آپ کی حکومت کے وقت میں ہوا تھا؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: بالکل اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ بڑے یونیک یا اس قسم کے کرائمز کی کوئی مثال نہیں ہے اب اگر ایک شخص کراچی میں بیٹھا ہے اور وہ امریکا میں ڈگری بیچ رہا ہے۔ طلعت حسین: یہ شخص نہیں نیٹ ورک ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: جی نیٹ ورک ہے آپ تو کسی شخص کے خلاف ہی کارروائی کریں گے جو establish ہوگا کہ یہ اس سے فائدہ اٹھارہا تھا کہ بینیفشری وہ ہے، اب وہ پیسے کہاں لے رہا ہے، کس کو بیچ رہا ہے، کیسے بیچ رہا ہے، کیا وہ پراڈکٹ جو وہ بیچ رہا ہے کیا وہ غیرقانونی ہے اس ملک کے اندر، یہ بڑے پیچیدہ معاملات ہیں۔ طلعت حسین: ایف بی آئی نے تو باقاعدہ اس کے اوپر پورا ٹریل ہے کیس کا، انہوں نے بندے کو پکڑلیا، سزا دیدی، پہلے وہ وعدہ معاف گواہ بننا چاہ رہا تھا، آپ کی اپنی ایف آئی اے نے تحقیق کی، گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر معاملہ کو چیف جسٹس جب ٹیک اپ کریں تب ملک کے وزیراعظم یا حکومت کو یاددہانی ہو کہ یہ بھی معاملہ ہے؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: کورٹس کا یہی ہوتا ہے کہ کوئی وہاں پرآکر پٹیشن دیتا ہے، یہی پٹیشنز کا مقصد ہوتا ہے جو constitutional petition یا writ petition ہوتی ہیں،اور وہ سوموٹو بھی لیتے ہیں یہ ان کا حق ہے بالکل لینا چاہئے ۔ طلعت حسین: آپ کی ذمہ داری کیا ہے ایسے معاملات کو take up کرنے کے لئے جس سے ملک کی سبکی ہوتی ہے؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: بالکل اس پر ایکشن لینا چاہئے، میں نے پہلے کہا کہ اگر کوئی شکایت آتی ہے تو اس پر ایکشن لیا جاتا ہے، اس معاملہ میں پہلے سے بھی یہ معاملہ چل رہا تھا، اس میں بھی اس وقت کرائم establish کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی تھی، یہ آپ سب جانتے ہیں اس کے حقائق بڑے واضح ہیں لیکن اگر کوئی نیا evidence ہے یا کوئی نئی بات ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔طلعت حسین: آپ کے حوالے سے اخبارات میں یہ خبر بھی چھپی کہ آپ ڈاکٹر طاہر القادری کا نام ای سی ایل پر ڈالنا چاہ رہے ہیں؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: نہیں نہیں ، یہ کچھ اخبارات میں شاید آیا ہے، طاہر القادری تو پاکستان نیشنل ہی نہیں ہیں۔ طلعت حسین: آپ نے ان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے ملک چلے جائیں؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: نہیں میرا نہیں، اگر وہ ویزے پر آئے ہوئے ہیں تو بالکل یہاں پر رہیں۔ طلعت حسین: تو کیا ای سی ایل پر ڈالنے کی کوئی بات ہے؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: کم از کم حکومت کی طرف سے ایسی بات نہیں ہے اگر کوئی کورٹ کا آرڈر آیا یا کسی تحقیقاتی ایجنسی کو ان کی ضرورت ہوئی کسی معاملہ میں تو ای سی ایل پر ڈالنے کا معاملہ ، مجھے اب قانون کا صحیح تفصیلات کا نہیں پتا کہ کیا ہم کسی foreign national کو ای سی ایل پر ڈال سکتے ہیں یا نہیں، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے، کم ازکم حکومت سوموٹو یا directly ایسا کوئی قدم نہیں کررہی۔ جومجھے علم ہے، جو میری نالج ہے کہ ان کے پاس پاکستانی نیشنلٹی نہیں ہے اور وہ کینیڈا کے نیشنل ہیں۔ایشو تو ہے لیکن freedom of speech بھی ہے، اس کی کیا limits ہیں ان کو define کیا جارہا ہے۔میراطاہر القادری کو مشورہ ہے وہاں بھی ایک مرتبہ کوشش کر کے دیکھ لیں۔میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ صرف وہاں اکیلے نہیں تھے اس ملک کی بڑی پارٹیوں کی لیڈرشپ بھی اسی پلیٹ فارم پر موجود تھی۔ طلعت حسین: وہ اکیلے بھی آئے ہیں، اسلام آباد میں بھی آتے رہتے ہیں؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: اکیلے پہلے بھی آتے رہے ہیں اب بھی تشریف لائے ہیں۔ ان کو کورٹ نے اجازت دی، وہاں پر پاکستان کی بڑی پارٹیوں کی لیڈرشپ تشریف لائی، انہوں نے تقاریر بھی کیں، پارلیمنٹ کے بارے میں بھی انہوں نے کافی جارحانہ ریمارکس پاس کیے جس کا پارلیمنٹ نے بھی نوٹس لیا ہے لیکن یہ بات ٹھیک ہے شاید حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ establish کرے کہ کیا ایک foreing national پاکستان میں آکر سیاسی سرگرمیاں کرسکتا ہے، کیا وہ ہمارے آئین کے خلاف باتیں کرسکتا ہے، پارلیمنٹ کے خلاف باتیں کرسکتا ہے، گالی گلوچ کرسکتا ہے یا نہیں۔ یہ بات آپ نے اٹھائی ہے تو یہ کورٹس بھی آپ نے کہا سوموٹو نوٹس لیتے ہیں تو شاید یہ بھی ایک ایشو ہے کورٹس سوموٹو نوٹس لے سکتے ہیں کیونکہ کورٹس نے ہی اجازت دی تھی کہ آپ رات کے بارہ بجے تک یہ پروگرام کرلیں، وہ انہوں نے مہربانی کی ساڑھے دس بجے ہی وائنڈ اپ کردیا یا ساڑھے نو بجے، وہ بھی بات پوری ہوگئی، ہم بھی نوٹس لے لیتے ہیں، پھر کل بات آئی freedom of speech کی اور روکنے کی کوشش کررہے ہیں تو بہرحال آپ نے اچھی بات کی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ میں نے آپ کی بات سن لی، میں اب establish کرتا ہوں کہ وہ کیا پاکستانی نیشنلٹی رکھتے ہیں یا نہیں، یہ بھی establish کرناپڑے گا کہ کیا ایک فارن نیشنل پاکستان میں آکر سیاست میں حصہ لے سکتا ہے یا نہیں، کیا وہ demonstration کرسکتا ہے یا نہیں، یہ چیزیں define ہونی چاہئیں، میں اس معاملہ پر آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ آپ سازش کو کیسے define کریں گے، اگر وہ کوئی ملک توڑنے کی سازش کررہے ہیں تو میں اس کو نہیں کہہ سکتا لیکن جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ visible ہے، وہ سڑکوں پر ہیں۔ طلعت حسین: وہ کہتے ہیں ہم نے گورنمنٹ کو گرانا ہے، اب ان کو چلتا کرنا ہے، آپ کے خیال میں؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: آپ نے بڑی صحیح بات کی ہے کہ اس چیز کو examine کرنا چاہئے کہ اگر ایک فارن نیشنل آکر کہے کہ میں نے آپ کی حکومت گرانی ہے۔ طلعت حسین: آپ کیوں نہیں کرتے، ہر چیز کو examine کرنا چاہئے یہ کیوں کہہ رہے ہیں، آپ کیوں نہیں کرتے ہیں، اس پر توجہ نہیں ہے، یہ معاملہ اہم نہیں ہے؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی: دیکھیں توجہ، سیاسی معاملات ہیں، ہمارے پاس بہت سے ایشوز آتے ہیں، اس ایشو کوبھی میں examine کرلیتا ہوں، میں بالکل آپ سے اتفاق کرتا ہوں اور میں خود یہ ایشو میرے ذہن میں تھا کہ کیا ہم اجازت دے سکتے ہیں فارن نیشنل کو ملک میں آکر یہ کام کرنے کی، کیا کوئی فارن نیشنل یہ اسٹیٹمنٹ دے سکتا ہے publically کہ میں آپ کی حکومت کو گراؤں گا، یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہمارے قوانین کیا کہتے ہیں اس کے بارے میں، کیونکہ ان چیزوں کا کوئی سیاسی یا قانونی مثال نہیں ہے، آپ کسی دوسرے ممالک میں بھی یہ معاملات شاید ابھی تک زیربحث ہیں، کچھ ملکوں میں بڑے کلیئر ہیں۔