زینب کیس، پولیس تفتیش پر اظہار عدم اعتماد،72گھنٹے کی مہلت

January 22, 2018

لاہور(صباح نیوز)سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ پولیس صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کررہی ہے ،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحقیقات کیلئے تفتیشی اداروں کو 72گھنٹوں کی مہلت دیدی۔ جبکہ جسٹس منظور ملک نے کہا کہ پولیس کو ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرنی چاہیے، اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچاجاسکتا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اتنے واقعات ہوگئے پولیس کیا کر رہی تھی، دو تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے لیکن کسی نے کوئی کارروائی اور انکوائری نہیں کی۔ اتوار کوچیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس منظور ملک اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زینب زیادتی اور قتل کے ازخود نوٹس کی ۔متاثرہ بچوں اور بچیوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی زینب کے کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی۔سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ محمد ادریس اور پنجاب فرانزک ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل نے چیف جسٹس کوملٹی میڈیا پر بریفنگ دی۔زینب زیادتی قتل کیس کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ محمد ادریس نے کہا ہم نے 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کر لئے ہیں۔ جن میں سے8ڈی این اے ٹیسٹ میں دستخط میچ ہوئے ہیں۔اس پر جسٹس منظور ملک نے کہا آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں،پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں۔ عدالت کاکہناتھا کہ جس طریقے پر آپ کام کرہے ہیں اس طرح تو 21کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔انھوں نے کہا ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تحقیقات کرنی چاہیے،اگر پولیس 2015 میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔معزز جج نے کہا ہم جانتے ہیں کہ پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچاجاسکتا ہے۔ان کاکہناتھا کہ زیادتی کے 8مقدمات کے حالات وواقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کریں۔ چیف جسٹس نے زینب قتل کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا، اتنے واقعات ہوگئے پولیس کیا کر رہی تھی، دو تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے لیکن کسی نے کوئی کارروائی اور انکوائری نہیں کی۔ سماعت کے دوران متاثرہ بچوں اور بچیوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران جےآئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں زینب قتل کیس کے سلسلے میں اب تک کی تحقیقات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جون 2015 کے بعد سے یہ آٹھواں واقعہ ہے اور 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کے نمونے لیے گئے ہیں۔