عمران خان اور جنگ جیو گروپ

January 25, 2018

اب تو وقت ہی نہیں ملتا ،کسی زمانے میں مجھے فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا، اچھی خاصی سوشل فلموں کے دوران اچانک سلطان راہی کی فلموں کا دور شروع ہوا۔ سلطان راہی تو اللہ کو پیارے ہوگئے ان کی جگہ عمران خان نے لے لی ہے۔ سلطان راہی رائٹر کے لکھے ہوئے ڈائیلاگ بولتاتھا اور عمران خان بھی رائٹر ہی کے لکھے ہوئے ڈائیلاگ بولتے ہیں،وہ فلمی بڑھکیں لگاتا تھا، عمران خان سیاسی بڑھکیں لگاتا ہے۔ عمرا ن خان کی ایک دین یہ ہے کہ انہوں نے سیاست میں ایک نئی زبان متعارف کروائی ہےجسے میں نے عبرانی کے وزن پر ’’عمرانی زبان‘‘ کا نام دیا ہے۔ وہ اختلاف کرنے والوں کو اتنے گھٹیا خطابات سے نوازتے ہیں اور اتنی پست زبان استعمال کرتے ہیں جو اس سے پہلے نہیں سنی گئی تھی، فلموں اور ڈراموں میں ایک چیز ڈائیلاگ کی صورت میں CONTINUITYہ وتی ہے جو کردار گاہے بگاہے بولتا ہے، سلطان راہی کی CONTINUITY ’’تیری لاش نوں مچھیاں ای کھان گیئاں‘‘(تمہاری لاش کو مچھلیاں ہی کھائیں گی) تھی جبکہ عمران خان اس کی جگہ’’میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا‘‘ کی تکرار کرتےہیںاور یہ دھمکی وہ ہر اس معززشخص کو دیتے ہیں جو ان سے اختلاف کرتا ہے۔
ان دنوں دیگر بے شمار ’’اختلاف کنندگان‘‘ کے علاوہ جنگ گروپ خصوصی طور پر ان کے نشانے پر ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے ادارے کو جو وہ دھمکیاں دے رہے ہیں اور میر شکیل الرحمان پر جو گھٹیا الزامات لگا رہے ہیں، یہ جنگ اور جیو کی صحافتی پاسداری کا نتیجہ ہے کہ ان کا گالیوں بھرا موقف بھی وہ اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچاتا ہے۔ کسی کو غدار کہنا، بکائو مال کہنا اور اس طرح کی دوسری غلیظ باتیں کرنا عمران خان ہی کا ورثہ ہے جو وہ اپنے پیروکاروں تک بھی منتقل کر رہے ہیں اور پیرو کار اپنےمرشد کی وہ ننگی گالیاں ہی ’’مور اوور‘‘ کے طور پر ’’سوشل میڈیا‘‘ پر نکالتے نظر آتے ہیں جو ان کے مرشد سخت مجبوری کی وجہ سے زبان پر نہیں لاسکتےتھے۔ مجھے ’’جنگ‘‘ کے ساتھ وابستہ ہوئے کم و بیش دوعشرے ہونے کو ہیں اور اس دوران اور اس سے پہلے بھی میں نے اس ادارے کو اور اس کے مہتمم کو پاکستان کا جتنا عاشق پایا ہے اور اصولوں کی بنیاد پر اربوں روپے کا نقصان اٹھاتے دیکھا ہے، اس کے بعد خان صاحب کے گھٹیا الزامات پر مجھے ابکائی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ انگریز کے دور میں مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور دوسرے اکابرین صحافت ظلم اور جبر کے خلاف سینہ تانے کھڑے رہے اور اس حوالے سے بے پناہ قربانیاں دیں۔ آزادی کے بعد حمید نظامی، مجید نظامی، شورش کاشمیری، مجیب الرحمان شامی، حسین نقی اور کئی دوسرے جید صحافی میدان میں اترے اور صحافت کی لاج رکھنے کے لئے قربانیاں دیں۔جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان ٹھنڈے مزاج کے حامل تھے۔ وہ جنگجو تو نہیں تھے مگر انہوں نے صحافت پر کڑی پابندیوں کے دوران بھی وہ خبریں خواہ اخبار کے کونے کھدرے میں شائع کیںجن سے شہنشاہانِ وقت کے ماتھےپر تیوریاں پڑتی رہیں۔
اس وقت اور لوگ بھی سچ بولتے اور لکھتےہیں تاہم ان کی زیادہ تعداد جنگ اور جیو میںنظر آتی ہے،انہیں اس ادارے کے علاوہ شاید ہی کوئی اور ’’سہار‘‘ سکتا کہ ان کی حق گوئی کی تمام تر ذمہ داری ادارے کے سر ہوتی ہے اور ادارہ ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور یہ ادارے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، عمران خان کو یہ بات کیسے گوارا ہو سکتی تھی، چنانچہ انہوں نے جنگ اور جیو کے مہتمم کے خلاف اپنی زبان کو سان پر لگا دیا اور ان پر وہ الزامات عائد کئے جو کسی دور میں بھی ان پر عائد نہیں کئے گئے تھے۔ نوازشریف صاحب کے ایک دور حکومت میں اس ادارے کو ایک بے وقوف شخص سے جو اب سکون سے بیرون ملک بیٹھا ہے’’اٹ کھڑکا‘‘ کرنا پڑا اور مالی خسارے کی کوئی پروا نہیں کی، جنرل پرویزمشرف کے دور میں تو اس ادارے کے درو دیوار پر سنگ باری کی گئی، جیو بند کیاگیا، سرکاری اشتہارات بند کر دیئےگئےاور یوں اربوں کا خسارہ برداشت کرنے کے باوجود ادارہ اپنی حق گوئی سے باز نہیںآیا۔ اور آج کے دور میں بھی جنگ گروپ اور میرشکیل الرحمان کوناپسندیدہ ترین زمرے میں رکھا ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ اور جیو جہاں موجودہ حکومت پر کڑی تنقید کرتےہیں، وہاں حکومت اور خاص طور پر نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بھی اٹھائی جاتی ہے۔
جمہوری اقدار اور صحافتی اقدار کے ساتھ یک جہتی کاتقاضا یہی تھا ۔ ظاہر ہے یہ بہت بڑا جرم تھا، جس کی سزا دینے کے لئے عمران خان میدان میںاترے یا اتارے گئے اور خان صاحب نے جنگ اور جیو کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کر دیا،جس پر جنگ اور جیو گروپ کی طرف سے بالآخر عمران خان کو قانونی نوٹس بھیجنا پڑا، جس میں عمران خان سے کہا گیا کہ وہ چودہ روز میں غیر مشروط معافی مانگیںبصورت دیگر انہیں ایک ارب روپے بطور ہرجانہ اداکریں۔ جنگ، جیو گروپ کے قانونی مشیر عامر عبداللہ عباسی نے کہا کہ آپ نے میرے موکلین پر بلیک میلر، فرعون، بھارت اور امریکا کے ایجنٹ ہونے اور باہر سے فنڈز لینے تک کے الزامات لگائے۔ بدعنوان وزیر اعظم کو بچانے، چوروں کا ساتھ دینے، مالی مفادات کے لئے میڈیا ہائوس استعمال کرنے، میڈیا کا گاڈفادر، قوم کا مجرم، واٹس ایپ اسٹوری کے ذریعے سپریم کورٹ کو بدنام کرنے، انتخابات میں دھاندلی کے لئے ہیرا پھیری اور فوج کو بد نام کرنے ایسے جھوٹے ، من گھڑت الزامات لگائے۔ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ذریعے میر شکیل الرحمان میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہیں، پیسے کے لئے اپنا ضمیر بیچا، نوازشریف کوبچانے کے لئے ان سے رقم لی، حکومت میں آ رہا ہوں، تمہیں نہیںچھوڑوں گا،نوٹس میں پوچھا گیا کیا کوئی صادق و امین ایسے جھوٹے الزامات لگا سکتا ہے؟
چلیں اچھا کیا نوٹس بھیج دیا، مگر خان صاحب کا کیا ہےوہ معافی مانگ لیں گے اور اس کے بعد پھر رٹی رٹائی زبان سے بولنا شروع کردیں گے۔ وہ ایک بے اعتبار سے شخص ہیں، میرے خیال میں ان کی کسی بات کو بھی اب سیریس نہیں لیا جاتا، ان کی بات پر اب صرف ہنسا ہی جاسکتا ہے۔میں ان کے ہر بیان پر جی کھول کر ہنستا ہوں،آپ نے خواہ مخواہ نوٹس بھیجا، آپ ہنس لیا کرتے تو زیادہ بہتر تھا!